Sunday, September 16, 2018

اسرائیل کا قیام اور سیکولر مسلمانوں کا کردار

Image result for balfour declaration


اعلان بالفور دراصل فلسطین پر قبضے کے دوران اس وقت کی برطانوی حکومت کی یہودیوں کے ساتھ ہونے والے ایک خفیہ معاہدے کی توثیق کی تھی، جس میں پہلی جنگ عظیم کے بعد سلطنت عثمانیہ پر قبضے کی صورت میں برطانیہ نے صہیونیوں کو اس بات کا یقین دلایا تھا کہ وہ سر زمین فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام میں ان کی بھرپور اور عملی مدد کریے گی۔

اسی اعلان کے تحت بعد ازاں دنیا بھر کے یہودیوں کی فلسطین منتقلی شروع ہوئی، دہشت گردی کی کاروائیوں کے زریعے مسلمانوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کیا گیا اور بلآخر سنہ 1948ء میں عالم اسلام کے قلب میں صہیونی ریاست قائم کی گئی۔

اسرائیل کے قیام کی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو جہاں ایک طرف برطانیہ کا مجرمانہ کردار نطر آتا ہے وہیں نام نہاد سیکولر مسلمانوں کی غداریاں بھی کھل کر سامنے آتی ہیں۔

اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کرنے کے لئے مصطفی کمال پاشا نے خلافت کے خاتمے کا اعلان کیا۔ اور خلافت اسلامیہ کی حدود پر اصرار کرنے کے بجائے استعماری تقسیم کو قبول کر لیا ورنہ اسرائیل کا قیام کبی بھی قانونی سند جواز نہ پا سکتا۔ 

پھر اس ناجائز اور غیر قانونی ریاست اسرائیل کو تسلیم کرکے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والا پہلا مسلم ملک سلیکولر مصطفی کمال پاشا کا ترکی تھا۔ ایک مصطفی پاشا ہی کیا اگر مصر، شام، لبنان، اردن اور تیونس پر قابض سیکولر حکمران اگر درپردہ اسرائیل کی معاونت نہ کرتے تو اس کے لئے تمام تو مغربی امداد کے ہوتے ہوئے بھی اپنا وجود برقرار رکھنا ممکن نہ ہوتا۔

آج بھی غزہ کی مزاحمت پر قابو پانے کے لیے مصر اسرائیل ناکہ بندی میں مکمل حصے دار ہے۔ دوسری جانب متحدہ عرب امارات، بحرین، کویت اور سعودیہ اس مزاحمت کو کُچلنے کی اسرائیلی کوششوں معاون اور مددگار ہیں۔ یہاں تک کہ چند ماہ پہلے جب عرب راجواڑوں نے قطر کی ناکہ بندی کی تو اُس کے خلاف پیش کی جانے والے فردِ جرم میں ایک جرم یہ بھی درج تھا کہ قطر فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس کی مدد کر رہا ہے۔ 

 اعلان بالفور کی سویں سالگرہ کے موقع پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے ایک ملین لوگوں کے دستخط جمع کرنے کی مہم کی تھی۔ جس میں برطانیہ سے کہا گیا کہ وہ فلسطینیوں سے معافی مانگے۔ اس مہم کی روح رواں تنظیموں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ برطانوی حکومت سے فلسطینیوں سے معافی منگوانے کے لیے عدالت سے بھی رجوع کریں گے۔ 

میں یہ سوچ رہا ہوں کہ ان نام نہاد سیکولر مسلمانوں کی غداریوں کی معافی کس سے منگوائی جائے اور کون سی عدالت سے رجوع کیا جائے۔ یہ تو آج بھی اسلام کے بجائے کفر کے حمایتی ہیں، اور مسلمانوں کی سرزمینوں کو کفار اور انکے ایجنٹوں کے حوالے کرنے کے لئے امت مسلمہ کے وسائل کو استعمال کر رہے ہیں۔

اگر امت کے بیدار مغز نوجون ان آستین کے سانپوں کو پہچان جائیں تو یہ امت مسلمہ کی نشاط ثانیہ کا نقطہ آغاز ہو گا۔



No comments:

Post a Comment

جمال خاشقجی کا قتل، سعودی شقاوت اور آزدی اظہار رائے

سعودیہ کا ایک اور جھوٹ بے نقاب ہوا’ مقتول سعودی صحافی جمال خاشقجی کے جسم کے اعضاء سعودی قونصلر جنرل محمد العتیبی کے استنبول میں واقع ...