Friday, June 29, 2018

کیا عمران خان ہنی ٹریپ کا شکار ہوچکے ہیں؟؟



حالات تو اسی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے سربراہ اس جال میں پھنس چکے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ 66 سال کا جہاندیدہ سیاستدان کیا دامِ الفت (honey trap) کا شکار ہو سکتا ہے؟
اس کا جواب ہاں میں ہے، دنیا کے کئی سیاسی اور عسکری رہنماوں کی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ جہیں ڈھلتی یا آخری عمر میں دامِ الفت (honey trap) میں پھنسا کر استعمال کیا گیا۔
خصوصا پاکستانی سیاستدانوں اور فوجی سربراہوں کے ریکارڈ تو اس سلسلے میں بہت خراب ہے۔

دامِ الفت (honey trap) میں پھنسنے والوں میں پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ جن کا تعلق پنجاب کے علاقے کرنال سے تھا۔ جنہوں نے 38 سال کی عمر میں دوسری شادی بیگم رعنا سے 1936 میں ہوئی۔ بیگم رعنا کی پیدائش ہندوستان کے علاقے اترکھنڈ میں الموڑہ کے مقام پرایک عیسائی خاندان میں ہوئی اور ان کے والد ڈینیل پنت نے ان کا نام شیلا آئرین پنت رکھا تھا۔ شیلا آئرین پنت نے بعد میں لیاقت علیخان کی محبت میں گرفتار ہو کر اپنا مذہب تبدیل کیا۔ اور شادی کے بعد رعنا لیاقت علی خان بن گئیں۔ پاکستان آرمی نے انہیں پہلی خاتون بریگیڈئر جنرل کا اعزاز دیا۔آپ نے پاکستان کی پہلی خاتون سفیر کے طور نیدرلینڈ، اٹلی اور تیونس میں خدمات سرانجام دیں۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ میں وزیر رہیں۔بعدازاں بھٹو نے انہیں سندھ کی پہلی خاتون گورنر کے طورپر تعنیات کیا۔ بیگم رعنا پاکستان میں خواتین کو گھروں سے نکالنے، آزاد خیالی اور پردے کی مخالفت کی بانی ہیں۔ انہوں نے اپوا کی بنیاد رکھی جس نے پاکستان کی ابتدا سے شرعی قوانین کے نفاذ کی مخالفت کی۔ 
Image may contain: one or more people and people sitting


دامِ الفت (honey trap) کا باقاعدہ شکار ہونے والا پہلا پاکستانی سربراہ گورنر جنرل غلام محمد تھا۔ فالج کا شکار یہ معذور شخص آخری عمر میں ایک جرمن نژاد امریکی خاتون روتھ بورال کی زلف کا اسیر ہوا۔ یہ ایک ایسا سربراہ تھا فالج کی وجہ سے جس کی زبان بھی کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا۔ اور نہ ہی یہ کسی کاغذ پر دستخط کر سکتا تھا۔ اس کے بیانات اورہر طرح کے احکامات پر دستخط اس کی امریکی سیکریٹری ہی جاری کرتی تھی۔ اس حالت میں اس نے امریکیوں کو پہلی بار پاکستان میں مداخلت کا موقعہ دیا۔ اور پشاور کے نزدیک بڈبھیر کا ہوائی اڈا امریکیوں کو دیا۔ اسی نے اسمبلیاں توڑ کر غلط رسم کا آگاز کیا، امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر محمد علی بوگرا کو اچانک وزیر اعظم مقرر کر کے پورے ملک کو حیران کر دیا۔ یہی دور تھا جب پاکستان امریکی کالونی بنا۔Image may contain: 2 people
امریکی میں تعنات پاکستانی سفیر کو اچانک پاکستان کا تیسرا وزیراعظم محمد علی بوگرہ بنائے گئے تھے۔ جن کے دور میں پاکستان میں امریکیوں کو خصوصی مراعات حاصل ہوئیں۔ بوگرا صاحب بھی امریکی میں تعناےی کے دوران دامِ الفت کا شکار ہوئے۔ انکی دوسری بیوی عالیہ سدی لبنانی نژاد امریکی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔
پاکستان کے ایک اور وزیراعظم حسین شہید سہروردی بھی دام الفت کا شکار ہوئے۔ اُن کی دوسری اہلیہ کا تعلق روس سے تھا۔ وہ ماسکو آرٹ تھیٹر سے وابستہ ایک روسی اداکارہ تھیں۔ ان کا نام ویرا الیگزینڈرونا کالڈر تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ حسین شہید سہروردی کا پاکستان میں جاری روس امریکہ کشمکش کے دوران جھکاو روس کی جانب تھا۔
پاکستان کے ساتویں وزیر اعظم ملک فیروز خان نون کی اہلیہ بیگم وقار النسا نون کا تعلق اسٹریا سے تھا۔ ان کا پیدائشی نام وکٹوریہ ریکھی تھا۔ ملک فیروز خان نون جب برطانیہ میں حکومت ہند کے ہائی کمشنر تھے تب ان کی ملاقات وکٹوریہ سے ہوئی۔ جس کے بعد دونوں کی محبت کا آغاز ہوا جو شادی پر منتہج ہوئی۔ بعد ازاں وکٹوریہ اپنا مذہب اور نام ترک کر کے بیگم وقار النسا نون ہوگئیں۔ یہ خواتین کی آزاد خیالی کی حامی اولین تنظیم اپواء کے بانیوں میں شامل تھیں۔ پاکستان میں تعلیم کو سیکولر خطوط پر ڈھالنے میں ان کا اہم کردار ہے۔
ہنی ٹریپ کا دوسرا شکار پاکستان کا آخری گورنر جنرل اور پہلا صدر سکندر مرزا تھا۔ جسے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ معروف غدار میر جعفر کا پڑپوتا تھا۔ اس کی دوسری اہلیہ ناہید افغامی سے محبت اور شادی کو باقاعدہ ایرانی انٹیلیجنس کا کارنامہ قرار دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ اُس وقت کی ایرانی انٹیلیجنس امریکی سی آئی اے کا ایک ذیلی ادارہ سمجھی جاتی تھی۔ نائید افغامی پاکستان میں ایران کے ملٹری اتاشی کی بیوی کی حیثیت سے پاکستان آئیں۔ ایران کے ڈیفنس اتاشی کی اہلیہ کی حیثیت سے اُن کی ملاقات اُس وقت کےڈیفنس سیکرٹری میجر جنرل سکندر مرزا سے ہوئی۔ ملاقاتیں محبت میں بدل گئیں۔ پھر نائید نے اپنے ایرانی شوہر سے طلاق حاصل کر کے اسکندر مرزا سے شادی کر لی۔ میجر جنرل سکندر مرزا کے چور دروازے سے اقتدار میں آنے کے بعد نائید ملک کے سیاہ اور سفید کی مالک بن گئیں۔ اس دور میں ایران اور امریکہ کے مفاد میں ہونے والے اقدامات کی تفصیل کے لیے ایک پوری کتاب درکار ہے۔ Image may contain: 2 people, people smiling, people standing and suit
پاکستان کے دوسرے فوجی آمر آغا محمد یحیٰ خان کا کردار اتنا گھنونہ ہے کہ اُس پر بات کرت ہوئے گھن آتی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یحیٰ خان کی داشتہ اقلیم اختر المعروف جنرل رانی بھی غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ایجنٹ تھی۔Image may contain: 1 person
ایرانی انٹیلیجنس کا دوسرا کارنامہ ذولفقار علی بھٹو کو دام الفت میں گرفتار کرنا قرار دیا جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی دوسری اہلیہ بیگم نصرت اصفحانی کا تعلق ایران کے شہر اصفحان سے تھا۔ وہ گریجویشن کے بعد پاکستان آئیں، جہاں کراچی میں اُن کی ملاقات بھٹو سے کرائی گئی۔ جو پہلے محبت اور پھر شادی کا باعث بنی۔ ذولفقار علی بھٹو کے کئی اقدامات کے پیچھے نصرت بھٹو کی وساطت سے ایرانی اثرات کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ Image may contain: 2 people, suit and indoor
یہ بھی حقیقت ہے ذولفقار علی بھٹو کی اقتدار سے برطرفی کے بعد میں سزائے موت کے بعد ان کا خاندان افغانستان اور پھر شام منتقل ہوا۔ دونوں ممالک اُس وقت ایران کے زیر اثر تھے۔ خاندان کے باقی افراد بعد ازاں مغربی ممالک چلے گئے لیکن دہشت گردی کی متعدد وارداتوں میں پاکستان کو مطلوب میر مرتضیٰ بھٹو شام میں ہی مقیم رہے۔ جن کی اہلیہ غنویٰ بھٹو کا تعلق بھی شام سے ہے۔

2 comments:

  1. محترم میں ان حضرات کے بارے میں تو کچھ نہیں کہنا چاہتا. صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ 57 سے 67 سال کا میں نے کالج کے زمانہ ( 1954ء تا 1960ء) میں سنا تھا کہ محبت کا دورہ پڑتا ہے

    ReplyDelete

جمال خاشقجی کا قتل، سعودی شقاوت اور آزدی اظہار رائے

سعودیہ کا ایک اور جھوٹ بے نقاب ہوا’ مقتول سعودی صحافی جمال خاشقجی کے جسم کے اعضاء سعودی قونصلر جنرل محمد العتیبی کے استنبول میں واقع ...