Wednesday, December 6, 2017

بابری مسجد تنازعے کی تاریخ

انتہا پسند ہندوں کے ہاتھوں بابری مسجد کی شہادت کو 25 سال بیت گئے۔
6 دسمبر 1992ء کو بھارتی نیم فوجی دستوں،ہندو انتہا پسند شیوسینا، آر ایس ایس کے غنڈوں نے حکومتی سرپرستی میں 16ویں صدی کی تاریخی بابری مسجد کو شہید کر دیا تھا۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد بھارت میں مسلم کُش فسادات میں 3 ہزار سے زائد مسلمانوں کو بھی شہید کیا گیا تھا۔ جس کے خلاف اُس وقت کے اتر پردیش کے وزیراعلیٰ کلیان سنگھ اور شیو سینا کے سربراہ بال ٹھاکرے اور ایل کے ایڈوانی
سمیت 49 افراد کے خلاف مقدمات درج ہوئے تھے۔ 24 سال گزرنے کے باوجود کسی بھی ملزم کوسزا نہیں ہو سکی ہے۔
تین گنبدوں والی بابری مسجد شہنشاہ ”بابر“ کے دور میں اودھ کے حاکم ”میرباقی اصفہانی“ نے935 ہجری بمطابق 1528ء میں تعمیر کرائی تھی، مسجد کے مسقف حصہ میں تین صفیں تھیں اور ہر صف میں ایک سو بیس نمازی کھڑے ہوسکتے تھے، صحن میں چار صفوں کی وسعت تھی، اس طرح بیک وقت ساڑھے آٹھ سو مصلی نماز ادا کرسکتے تھے۔
اپنی ابتداء تعمیر سے لے کر 1949ء تک یہ مسجد بغیر کسی نزاع و اختلاف کے مسجد ہی کی حیثیت سے مسلمانوں کی ایک مقدس و محترم عبادت گاہ رہی اور مسلمان امن وسکون کے ساتھ اس میں اپنی مذہبی عبادت ادا کرتے تھے۔ اگرچہ اس دوران شاطر انگریزوں نے تقسیم کرو اور حکومت کرو کے اپنے فلسفے کے مطابق سب سے پہلے ‘‘ رام جنم استھان’’ اور ‘‘سیتا کی رسوئی’’ کا افسانہ ترتیب دیا۔ 1855ء میں ایک بدھسٹ نجومی سے ان دونوں مقامات کی جگہ معلوم کی خاطر زائچہ کھینچوایا گیا۔ جس نے طے شدہ سازش کے عین مطابق زائچہ کھینچ کر ”جنم استھان“ اور ”سیتا کی رسوئی“ کو بابری مسجد سے متصل احاطہ کے اندر بتایا۔ پھر انگریزوں کی ایما پر رافضی العقیدہ ”نقی علی خاں“ جو لکھنو کے مشہور نواب واجد علی کا خسر اور وزیر تھا، نے بابری مسجد کی عمارت ک باہر مگر اس کے احاطہ کے اندر کی جگہ کو ‘‘جنم استھان و سیتا رسوئی’’ کے لئے دے دیا۔
1857 ء میں جب کہ ہندوستان کے مسلمانوں اور ہندوؤں نے متحد ہوکر بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی کا
 بگل بجا، تو باہمی اتفاق و یگانگت کو مستحکم کرنے کی غرض سے اجودھیا کے مسلم رہنما امیر علی اور ہندو رہنما بابا چرن داس نے رام جنم استھان اور بابری مسجد کے تنازعہ کو ہمیشہ کے واسطے ختم کرنے کی غرض سے ایک معاہدہ کیا کہ رام جنم استھان کی مخصوص متنازعہ اراضی ہندوؤں کے حوالہ کردی جائے اور ہندو بابری مسجد کی عمارت سے دست کش ہوجائیں، انگریز جب دوبارہ فیض آباد پر قابض ہوئے تو انہوں نے ہند مسلم اتحاد کو تاراج کرنے کے لئے ، انھوں نے بابارام چرن داس اور امیر علی دونوں کو ایک ساتھ املی کے پیڑ پر لٹکاکر پھانسی دیدی ۔ مندر مسجد کے نزاع کو از سر نو زندہ کرنے کی غرض سے متنازعہ رام جنم استھان اور بابری مسجد کے معاہدے کو کلعدم قرار دے دیا ۔ 
1858ء سے لے کر 1948 ء تک حالات جوں کے توُں رہے۔ 23 اور 22 دسمبر 1949ء کی درمیانی رات کو ایودھیا کے ہنومان گڑھی مندر کے مہنت ‘‘ابھے رام داس’’ نے اپنے کچھ چیلوں کے ساتھ مسجد میں گھس کر عین محراب کے اندر ایک مورتی رکھ دی۔ جس کے بعد یہ افواہ پھیلائی گئی کہ مورتی اچانک محراب میں نمودار ہو گئی ہے۔ فیض آباد کے سٹی مجسٹریٹ نے نقص امن کا بہانہ بنا کر دفعہ 145 کے تحت مسجد اوراس سے ملحق گنج شہیداں کو قرق کرکے مقفل کردیا۔ اور پولیس کا پہرا لگا دیا گیا۔ اس سلسلے میں مولانا حسین احمد مدنی، مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نے کئی بار آنجہانی پنڈت جواہر لال نہرو سے ملاقات کی لیکن مسئلہ حل نہ ہو سکا۔ 35 سال تک مسجد مقفل ہی رہی۔
اس دوران تالا بندی اور پولیس پہرے کے باوجود مسجد کی عمارت میں کئی تبدیلیاں کی گئیں اور مسجد کی عمارت پر کندہ آیات اور احادیث کو کھرچ ڈالا گیا اور احاطے میں دو چھوٹے چھوٹے مندر بنا دیے گئے۔ 30جنوری 1986ء مسٹر کے، ایم، پانڈے ڈسٹرکٹ جج نے اور رمیش پانڈے نامی شخص کی درخواست پر ہندو ں کو بابری مسجد میں پوچا کی اجازت دے دی۔ اس مجرمانہ فیصلے کے بعد، بغیر کسی تاخیر کے 5 بجکر 19 منٹ پر بابری مسجد کا تالا کھول دیاگیا جو 1950ء میں حکم امتناعی کے نفاذ میں لگایا گیا تھا۔ جس پر ہزاروں ہندو جو وہاں جمع کئے گئے تھے پوجا پاٹ کے لئے مسجد میں داخل ہوگئے، تالا کھولنے کی اس شرمناک تقریب کو سیکولر ملک کے نشریاتی ادارے ”دور درشن“ نے بڑے اہتمام سے نشر کیا۔
30اکتوبر1990ء کو یو پی میں ملائم سنگھ وزیر اعلیٰ تھے جب ہزاروں ہندو انتہا پسندوں نے بابری مسجدکو منہدم کرنے کی کوشش کی۔ ملائم سنگھ کے حکم پر شرپسندوں کو روکنے کیلئے گولی چلائی گئی ۔ کچھ ہندو تخریب کار مارے گئے لیکن مسجد کو بچا لیا گیا ۔ دوسری جانب نرسمہا راؤ وزیراظم بنے تو ستمبر1991ء میں ایک بل پیش کیا گیا جس کے تحت مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں کی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی اور 15اگست1947ء کو ان کی جو حیثیت تھی وہ برقرار رہے گی، تاہم بابری مسجد کو نرسمہاراؤ نے اس بل کی شرائط سے مستثنیٰ رکھا۔
1992 میں یوپی مین بی جے پی کی حکومت بنی اور کلیان سنگھ وزیر اعلیٰ مقرر ہوا ۔ جسے کے بعد پورے ہندوستان میں ہندو انتہا پسندوں نے جلسے جلوس نکالے اور ایڈوانی، سنگھل، ونے کٹیار اور اوما بھارتی وغیرہ 2 لاکھ ہندو دہشت گردوں کو لے کر ایودھیا پہنچ گئے ۔ مرکز سے اچھی خاصی تعداد میں فوج بھی اجودھیا پہنچ گئی مگر اسے نامعلوم مصالح کی بنیاد پر بابری مسجد سے دو ڈھائی کلومیٹر دور رکھا گیا، صوبہ اور مرکز کے نیم فوجی دستے مسجد کی حفاظت کے لئے اس کے چاروں سمت میں متعین کئے گئی مگر انھیں وزیراعظم کی سخت ہدایت تھی ہندو تخریب کاروں پر کسی حال میں بھی گولی نہ چلائی جائے۔
یوں 6 دسمبر کی وحشتناک تاریخ آگئی، ایڈوانی، اوما بھارتی وغیرہ کی قیادت میں تخریب کاروں نے گیارہ بج کر پچپن منٹ پر بابری مسجد پر دھاوا بول دیا اور بغیر کسی مزاحمت کے پورے اطمینان سے چار بجے تک اسے توڑتے اور ملبہ کو دور پھینکتے رہے یہاں تک کہ صفحہٴ زمین سے بابری مسجد کا نام و نشان ختم کردیا گیا۔
بابری مسجد اور اس کے تنازعے کی تفصیل جاننے کے لئے ”اجودھیا کے اسلامی آثار“ نامی کتاب کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

Sunday, October 1, 2017

شعیہ سُنی منافقرت کی وجوعات اور حل

شعیہ سُنی اختلاف تو 14 سو سال پرانا ہے۔ 14 صدیوں کے دوران کبھی یہ اختلاف دبا رہا اور کبھی ابھر کر سامنے آجاتا رہا ہے۔
عرب اور ایران کی نسبت ہندوستان میں شعیہ سُنی منافقرت بہت کم رہی ہے۔ تاریخ کو کھنگالنے پر بھی چند ایک واقعات کے علاوہ کسی بڑے فساد کے شواہد نہیں ملتے ہیں۔
اگرچہ ہندوستان میں محمد بن قاسم کی قائم کردہ سلطنت منصورہ کے بعد دوسری اسلامی مملکت جو ملتان میں قائم ہوئی وہ اسماعیلی شعیوں کی تھی۔ تیمور لنگ کے حملے کے بعد مختصر عرصے کہ لیے دہلی میں ایک شعیہ خاندان کی نیم خود مختار حکومت قائم ہوئی۔ اسی طرح شیر شاہ سوری سے شکست کے بعد ہمایوں ایران فرار ہوا، اور انتہائی متعصب شعیہ حکمرانوں یعنی صفویوں کی مدد سے دوبارہ ہندوستان پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا۔ کہا یہ بھی جاتا ہے کہ ہمایوں نے ایران نے باقاعدہ شعیہ مذہب اختیار کر لیا تھا۔ تاہم اس کا اثر مغلوں میں چند شعیہ رسومات کی صورت میں اورنگزیب سے پہلے تک باقی رہا۔ ہندوستان کے مسلمانوں میں کی اکثریت سنی العقیدہ تھی اور ہمیشہ رہی ہے۔
انگریزوں کا برصغیر پر قبضے کے دوران پہلے پہل جن نمایاں شخصیات  واسطہ پڑا وہ بھی شعیہ ہی تھے۔ پلاسی کی جنگ میں انگریزوں کا مقابلہ کرنے والا سراج الدولہ، اور معروف غدار میر جعفر دونوں شعیہ تھے۔ اسی طرح ٹیپو سلطان سے غداری کرنے والا میر صادق بھی شعیہ تھا۔ انگریزوں نے تقسیم کرو کی پالیسی کے مطابق سُنی اکثریت کے مقابلے میں ہمیشہ شعیہ اقلیت کو پروان چڑھایا۔ ایران سے جب آغا خان اول کو انگریزوں کا ایجنٹ ہونے کے الزام میں جلاوطن کیا گیا۔ تو انہیں ہندوستان لا کر مسلمانوں کی قیادت کے منصب پر سرفراز کرایا گیا۔ جس وقت مسلمانان برصغیر خلافت عثمانیہ کے لیے تاریخ ساز تحریک چلا رہے تھے، عین اُسی وقت معروف شعیہ رہنماوں آغا خان اور سید امیر علی نے خلافت عثمانیہ کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ لیکن اس کے باوجود عوام میں شعیہ سنی منافقرت جڑ نہیں پکڑ سکی۔ 
طوالت سے بچنے اور موضوع کو سمجھنے کے لیے  صرف یہی مثال کافی ہوگی  کہ برصغیر میں علمائے دیوبند کی دوسری بڑی جماعت "مجلس احرار" کے جنرل سیکریٹری ایک شعیہ 'مظہر علی اظہر' رہے ہیں ۔ اسی طرح  لکھنو کے ایک شعیہ عالم “تحریک مدح صحابہ" کے روح رواں ہوا کرتے تھے۔ 
پاکستان بننے کے بعد بھی شعیہ سُنی منافقرت کی عمومی فضا بہتر رہی، خصوصا "ختم نبوت " کی پوری تحریک کے دوران شعیہ اور تمام سُنی مکاتیب فکر کے علما ایک ہی سٹیج پر موجود ہوا کرتے تھے۔
معاملات وہاں سے خراب ہونے شروع ہوئے، جب 1979 میں ایران میں آنے والے شعیہ انقلاب کو پاکستان جیسے غالب سُنی اکثریت کے ملک میں درامد کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایرانی انقلاب کے سال ہی پاکستان میں شعیہ عالم مفتی جعفر حسین کی صدارت میں ‘تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان’ کا قیام عمل میں آیا۔ بیسویں صدی کی آٹھویں دھائی کا نصف اول کچھ غالی شعیوں کی جانب سے مسلسل جہاریت اور ہٹ دھرمی کا گواہ ہے۔ اس دوران پاکستان کی پارلیمان کا گھیراو کیا گیا، عمارت کو آگ بھی لگائی گئی۔ زبردستی اپنے مطالبات منوائے گئے۔ اسی طرح کوئٹہ میں پہلا شعیہ سُنی فساد ہوا جس میں کئی سُنی اور سکیورٹی فورسز کے اہلکار مارے گئے۔ اسی دوران ‘بالائی کرم ایجنسی’ خصوصا پارہ چنار سے سُنیوں کا مکمل صفایا کر کے وہاں مضبوط شعیہ ہولڈ قائم کر لیا گیا۔ اسی دوران ایران اور پاکستان کے کئی غالی شعیوں نے صحابہ اور ازدواج مطہرات  کے متعلق دلآزار کتابیں تصنیف کیں، یا پھر ماضی میں لکھی گئی دلآزار کتابوں کے تراجم ہوئے اور اشاعت نو کی گئی۔
ان واقعات کے بعد اہل سنت کی جانب سے رد عمل آنا ناگزیر تھا۔ چناچہ  انقلاب ایران اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے قیام کے 6 سال بعد سپاہ صحابہ وجود میں آئی۔ جس نے پاکستان میں شعیوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ غالی شعیوں کے جواب میں سُنی انتہا پسند موقف کی ترجمانی کی۔ لیکن یہ دوسری انتہا پر یوں چلے گئے کہ انہوں نے "کافر کافر شعیہ کافر" کا نعرہ لگا کر تمام شعیوں کو ترازوں کے ایک ہی پلڑے میں ڈال دیا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ برصغیر میں پائے جانے والے شعیوں میں غالی شعیہ بہت کم تھے۔ یہاں ہمیشہ سے زیادہ تعداد تفصیلی شعیوں کی رہی ہے۔ جبکہ زیدی شعیہ بھی خاصی تعداد میں موجود رہے ہیں۔ 
سپاہ صحابہ اور غالی شعیوں کی زبانی وتحریری تکرار جلد ہی مسلح تصادم میں بدل گئی۔ پھر اس میں ایرانی اور سعودی پراکسی وار بھی شامل ہوگئی۔ ایک دوسرے پر حملے، مساجد ، امام باڑوں میں بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ معمول بن چکی ہے۔
اس سے فائدہ جہاریت پسند غالی شعیہ طاقتوں نے اٹھایا، جنہوں نے خوف اور مظلومیت کا ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے کہ کسی شعیہ کے لیے معتدل موقف پر برقرار رہنا ناممکن بنا دیا گیا۔ اس لیے آج پاکستان میں اہل تشیع مذہب کے تمام انڈے غالی شعیوں کی ٹوکری میں ہیں۔
اس سے ملتی جلتی صورتحال نسبتا کم شدت سے سُنیوں کو بھی درپیش ہے، یہاں بھی کسی شعیہ کے حق میں بات کرنا یا شعیوں کے کسی جزوی موقف کو تاریخ طور پر درست قرار دینا، رافضیت کا الزام خود پر لینے کے مترادف بنا دیا گیا ہے۔ 
اس ساری صورتحال میں بدترین کردار ہماری اسٹیبلشمنٹ کا رہا ہے، جسں نے ایرانی انقلاب کی پاکستان میں درامد اور فروغ کو روکنے کے لیے جذباتی سُنیوں کو استعمال کیا۔ اور پھر انتہا پسند سُنیوں کی گوشمالی کے لیے شعیوں کو استعمال کرتی رہی ہے۔ نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک جانب واضع جھکاو کی پالیسی کو ترک کر کے ریاست دونوں طرف کے انتہا پسندوں کے خلاف برابری کی سطح پر غیر جانبدارآپریشن کرے۔ تاکہ ہمارا معاشرہ دونوں جانب کے مٹھی بھر انتہا پسندوں کے نرغے سے آزاد ہو سکے۔

Wednesday, September 6, 2017

کیا 6 ستمبر 1965 کو لاہور پر ہونے والا حملہ اچانک اور غیر متوقع تھا؟؟


بی بی سی کے معروف صحافی آصف جیلانی 1965 میں دلی میں روزنامہ جنگ کے نامہ نگار تھے۔ آصف جیلانی نے بی بی سی اردو پر تحریر کی گئیں 1965 کی جنگ سے متعلق یاداشتوں میں بتایا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑی جنگ کے بادل اگست 1965 کے پہلے ہفتہ سے ہی چھانے شروع ہو گئے تھے۔ یہ وہ موقع تھا جب مقبوضہ کشمیر میں آپریشن جبرالٹر کے نام سے چھاپہ مار کارروائی اپنے عروج پر تھی۔ حکومت پاکستان کا سرکاری بیان تھا کہ یہ کشمیری ’حریت پسندوں‘ کی کارروائی ہے۔ لیکن ہندوستان کی حکومت کا واضع اصرار تھا کے یہ چھاپہ مار پاکستان کے فوجی ہیں جو جنگ بندی لائین پار کر کے ہندوستان
کی حدود میں عسکری کاروائیاں کر رہے ہیں۔
16 اگست 1965 کو ہندو قوم پرست جماعت جن سنگھ نے کی کال پر دلی میں عام ہڑتال ہوئی اور اسی روز ایک لاکھ سے زیادہ مظاہرین نے پارلیمنٹ کے سامنے تک جلوس نکالا۔ ان مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ کشمیر میں مبینہ دراندازوں کے
حملے روکنے کے لیے پاکستان پر حملہ کیا جائے۔
آصف جیلانی بتاتے ہیں 20 اگست 1965 کو بھارتی جریدے ’تھاٹ‘ کے نایب مدیر این مکرجی نے مجھے بتایا کہ انہیں بے حد باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ صبح کابینہ کے اجلاس میں ہندوستا ن کی بری فوج کے سربراہ جنرل جے این چودھری نے شرکت کی تھی اور خبر دار کیا تھا کہ رن آف کچھ کے معرکہ میں شکست کے بعد ہندوستانی فوج کے حوصلے بہت پست ہیں اور فوج کے حوصلے بڑھانے کے لیے پاکستان کے خلاف بھر پور فوجی کارروائی لازمی ہے۔ مکر جی صاحب کا کہنا تھا کہ جنرل چودھری نے صاف صاف الٹی میٹم دیا ہے کہ اگر پاکستان کے خلاف فوری کارروائی نہ کی گئی تو ملک کی سیاسی قیادت کے لیے
اس کے نتایج خطرناک ہوں گے جس کے وہ ذمہ دار نہیں ہوں گے۔
24 اگست 1965 کو اُس وقت کے بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے لوک سبھا میں اعلان کیا کہ (مقبوضہ) کشمیر میں پاکستان کے در اندازوں کو روکنے کے لیے ہندوستانی فوج جنگ بندی لائین کے پار کارروائی سے دریغ نہیں کرے
گی۔
دلی میں جنگ کے کے بادل اتنے واضع تھے کہ 17 اگست کو پاکستان کی سرکاری نیوز ایجنسی کے نامہ نگار خلیل بٹالوی جو دلی کے پٹودی ہاوس میں اپنی فیملی کے ہمرا رہائس پذیر تھے۔ جنگی حالات کے پیش نظر پٹودی ہاوس چھوڑ کر چانکیہ پوری میں پاکستان کے ہائی کمیشن کی عمارت میں پناہ لے لی تھی۔
یکم ستمبر 1965 کو ریڈیو پاکستان لاہور پر اعلان ہوا کہ ’آزاد کشمیر‘ کی فوجوں
نے پاکستانی فوج کی مدد سے چھمب پر قبضہ کر لیا ہے۔
تین ستمبر 1965 کو جب لال بہادر شاستری نے اپنی نشری تقریر میں دلی اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں بلیک آوٹ کا اعلان کیا تو کسی کو شبہ نہیں رہا تھا
کہ دونوں ملکوں میں جنگ کا بگل بج گیا ہے۔
پانچ ستمبر کو یہ خبر آئی کہ پاکستانی فوج نے جوڑیاں پر قبضہ کر لیا ہے۔ اور وہ
اکھنور سے صرف چھ میل دور رہ گئی ہے۔
آصف جیلانی مزید یہ بھی بتاتے ہیں کہ 1965 ستمبر کی جنگ کے بعد بھارت میں پاکستان کے سفیر میاں ارشد حسین نے مجھے بتایا تھا کہ ہمیں اطلاع ملی تھی ٰٓکہ لال بہادر شاستری نے 3 جولائی کو انتقامی حملہ کا فیصلہ کیا تھا لیکن بعض وجوہ کی بناء پر ملتوی کر دیا تھا۔ 6 سمتبر کو لاہور پر حملے کی باوثوق ذرائع سے اطلاع ہمیں تاخیر سے ملی تھی، اس کے باوجود 4 ستمبر کو دلی میں ترکی کے سفارت خانہ کے توسط سے پاکستان کے دفتر خارجہ کو خبردار کردیا تھا کہ ہندوستان 6 ستمبر کو بین الاقوامی سرحد پار کر کے پاکستان پر حملہ کرنے والا
ہے۔
اس سب کے باوجود لاہور پر بھارتی فوج کے حملے کو ہم سرکاری طور پر بزدل دشمن کی چوری چھپے کاروائی قرار دیتے ہیں۔

Monday, September 4, 2017

کیا برما اکسیویں صدی کا اندلس بننے جا رہا ہے؟

روہنگیا یا روہنجیا مسلمان آج دنیا کے مظلوم ترین انسان ہیں، اقوام متحدہ بھی انہیں بجا طور پر سب سے زیادہ ستائی جانے والی اقلیت قرار دیتا ہے۔

برما جسے اب میانمار کہا جاتا ہے، تاریخی طور پر برصغیر کا حصہ رہا ہے، مختلف ادوار میں اس کی جغرافیائی حدود میں تبدیلی آتی رہی ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں اس پر مختلف سلطنتیں قائم ہوتی رہی ہیں۔ برصغیر کے دیگر خطوں پر قبضے کے ساتھ ہی برما پر بھی انگریزوں نے قبضہ کر لیا، موجودہ میانمار کے علاقوں پر انگریزوں کے قبضے کی ابتدا 1826 میں ہوئی جب  'اراکان' اور' تناسرم' کا علاقہ  برٹش انڈیا کے زیر قبضہ آیا، برمن وار 1852 میں وسطی برما جبکہ تیسری اینگلو برمن وار 1885 میں بالائی خطے پر قبضے کے ساتھ ہی تمام برما پر انگریزوں کا قبضہ مکمل ہو گیا۔

روہنگیا کا آبائی وطن اراکان بنگال سے متصل ہے، یہاں خلیفہ ہارون رشید کے عہدِ میں مسلم تاجروں کے ذریعہ اسلام پہنچا۔ 1430 میں 'سلیمان شاہ' کے ہاتھوں یہاں پہلی اسلامی حکومت تشکیل پائی، اس خطے پر ساڑھے تین سا سال تک مسلمانوں کی حکومت رہی۔ 1784 میں برما کے بدھسٹ راجہ بودھوپیہ نے اراکان پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا. جس کے خلاف مسلمانوں کی مزاحمت اور بدھ سپاہیوں کے مظالم کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ حالات کی خرابی کا فائدہ انگریزوں نے اٹھایا اور ابتدا میں اراکان اور پھر پورے برما پر قبضہ کر لیا، برما پر قبضہ کرنے والی برطانوی فوج کے سپاہیوں کی اکثریت بنگالی مسلمانوں کی تھی۔ جبکہ اراکان کے مسلمانوں نے بھی انگریزوں کو نجاعت دھندہ سمجھ کر اُن کا ساتھ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزوں کے دور میں برما کے مسلمانوں کی حالت بہتر رہی، سرکاری ملازمتوں اور کاروبار میں مسلمان نمایاں تھے۔ برصغیر میں مسلمانوں کے تمام رفاعی اداروں اور انجمنوں کو سب سے زیادہ چندہ برما کے دارلحکومت رنگون سے ملا کرتا تھا۔

انگریزوں نے اپنی انتظامی تقسیم کے تحت بنگال اور برما کی حد چٹاگانگ اور اراکان کے درمیان واقعہ دریائے ناف کو بنایا، یوں تاریخ میں پہلی بار یہ خطہ ایک انتظامی یونٹ کے تحت آگیا۔ مقبوضہ کشمیر کے علاقے لداخ کے علاوہ یہ برصغیر کا واحد حصہ تھا جہاں بدھ مت کے پیروکاروں کی اکثریت تھی۔ اس الگ انتظامی یونٹ میں اراکان کے علاقے کو ایک نیم خود مختار ریاست کا درجہ حاصل تھا، جس کے تمام انتظامی معاملات مقامی حکومت کے ماتحت تھے۔

روس میں سویت انقلاب، چین میں اشتراکی شورش اور جاپان کی جرمنی اور اٹلی سے قربت وہ خاص حالات تھے، جنہوں نے انگریزوں کو انیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے بعد سے تشویش میں مبتلا کر رکھا تھا۔ ان حالات میں برصغیر (ہندوستان) میں بڑھتی ہوئی سیاسی آگاہی اور اُس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے چینی کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے 1938 میں انگریزوں نے برما کو ہندوستان سے جدا کر کے ایک الگ کالونی کا سٹیٹس دے دیا۔ کیوں کہ برما کی سرحد چین، لاؤس اور تھائی لینڈ سے ملتی ہے۔ جہاں بیک وقت اشتراکی اثرات اور جاپان کی جہاریت کے خدشات لاحق تھے۔ (یہ خدشات دوسری جنگ عظیم میں برما پر جاپانی حملے، اور چین میں اشتراکی حکومت کے قیام کی صورت میں سچ بھی ثابت ہو گئے تھے۔)

یاد رہے برما کی ہندوستان سے علیحدگی کو جواز بنا کر ہی آل انڈیا مسلم لیگ نے 1940 میں ہندوستان کے مسلم اکثریتی خطے پر مشتمل'برما طرز کی' الگ  ڈومین تشکیل دیے جانے کی قرارداد پاس کی تھی۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد جب استعماری طاقتوں کو اپنی 'کالونیوں' پر براہ راست قبضہ برقرار رکھنا مشکل ہو گیا تو برطانیہ نے جہاں برصغیر کو پاکستان اور ہندوستان میں تقسیم کر کے اگست 1947 میں آزادی دی، وہیں برما کو جنوری 1948 میں ایک ملک کی حیثیت سے آزاد کر دیا۔ اس سے قبل اراکان کے مسلمانوں کی جانب سے 
 1945میں برما مسلم کانگریس (BMC) کے نام سے ایک سیاسی تنظیم بنا کر اراکان کی برما سے اعلیحدگی یا پھر اس مسلم اکثریتی خطے کو برما کے بجائے مسلم اکثریتی مشرقی پاکستان میں ضم کرنے کی تحریک شروع کی تھی۔ لیکن نہ تو انگریزوں نے اس پر کان دھرا نہ ہی پاکستان کی نوزائیدہ مملکت نے اس حوالے سے کوئی سرگرمی دیکھائی۔ 

آزادی کے بعد 1950 سے اراکان کے مسلمان تاریخی پس منظر کے حوالے سے اپنے خطے کی برما سے اعلیحدگی کی کوشش کرتے رہے۔ جس کی وجہ سے کبھی حالات زیادہ کشیدہ ہو جاتے اور کبھی کشیدگی میں کمی بھی ہوتی۔ اس سلسلے میں بڑی تبدیلی 1962 میں آئی جب برما میں جنرل 'نی ون' نے "برمی قومیت" کا نعرہ لگا کر اقتدار پر قبضہ کر لیا اور ملک میں مارشل لاء نافذ کیا۔ اس کے فوری بعد مارشل لاء آڈر کے تحت برمی فوج اور سرکاری ملازمتوں سے مسلمانوں کو غدار قرار دے کر نکال دیا گیا۔ اراکان پر فوج کشی کی گئی اور بڑے پیمانے پر مظالم ڈھائے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ 5 لاکھ سے زیادہ اراکانی مسلمانوں نے اس دور میں ہجرت کی، جو بنگلہ دیش، ہندوستان، پاکستان، سعودیہ، تھائی لینڈ اور ملائیشیا میں آباد ہو گئے۔

 1982میں ایک مارشل لا کے ایک ضابظے کے تحت اراکان کے مسلمانوں کو غیر ملکی مہاجر قرار دے کر حق شہریت سے بھی محروم کردیا گیا۔ یوں یہ اپنے ہی آبائی وطن میں غیر ملکی قرار پائے، نئے قانون کے مطابق ان کی لڑکیوں کی شادی کے لیے 25 سال اورلڑکوں کی شادی کے لیے کم ازکم 30 سال عمر مقرر کی گئی، شادی  کے لیے بھی سرحدی سیکوریٹی فورسیز سے اجازت نامہ کا حصول ناگزیر قراردیا گیا، تاکہ ان کی آبادی کی شرح میں اضافہ نہ ہوسکے۔ اراکانی مسلمانوں پر سرکاری سکولوں میں پڑھنے، کاروبار کے لیے لائسنز حاصل کرنے یا ملازمت کرنے پر پابندی عاید کر دی گئی۔ ان پر ملک کے اندر سفر کرنے کے لیے بھی پرمٹ کے حصول کی پابندی لگائی گئی۔ تاکہ یہ اپنے حقوق سے آگاہ نہ ہوسکیں اور نہ ہی کسی قسم کی مزاحمت کے قابل رہیں۔ اراکان کا نام تبدیل کر کے 'رکھائین' رکھ دیا گیا تاکہ مسلمانوں کو ان کے شاندار ماضی سے کاٹا جا سکے۔

اس کے ساتھ ہی حکمران فوجی جنتا نے بدھسٹوں اور مسلمانوں میں نفرت پیدا کرنے کے لیے بدھ مت کے مذہبی پیشواوں یعنی مانکوں کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا۔ تاکہ عوام کی توجہ فوجی جنتا کی بدعمالیوں سے ہٹی رہے۔ نتیجے میں مسلمان ایک جانب برمی فوج اور دوسری جانب بدھ مذہب کے پروکاروں کے مظالم کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اس دوران مسلمانوں کو  کئی فسادات کا نشانہ بنایا گیا۔ جن میں 1997کے منڈلالی کے فسادات، 2001 میں ٹنگائو کے فسادات، 2012 ء میں راکھینی  فسادات، 2013ء میں پورے میانمر میں مسلم کش فسادات، 2014ء میں ایک بار پھر منڈلالی فسادات، 2016ء میں مساجدوں کا جلائو اور رہنگیا کے فسادات اور اب 2017ء میں روہنگیا میں ہونے والے مسلم کش فسادات شامل ہیں۔
 2011 میں 1962 سے جاری طویل مارشل لا کا خاتمہ ہو گیا، لیکن جمہوریت کی بحالی سے مسلمانوں کی حالت  میں کوئی فرق نہیں پڑ سکا ہے۔ امن کا نوبل انعام پانے والی برما کی وزیر اعظم 'آنک سان سوچی' بدھ مانکوں کے خوف سے مسلمانوں کی بدترین نسل کشی پر لب کھولنے کی ہمت کے قابل بھی نہیں۔  آج صورتحال یہ ہے، 
ایک لاکھ دس ہزار برمی مسلمان مہاجرین برما۔تھائی لینڈ سرحد پر 9 کیمپوں میں بد حالی کی زندگی گزار رہے ہیں، کئی لاکھ بنگلادیش اور ہندوستان کے کیمپوں میں انتہائی بے بسی کا شکار ہیں۔ جبکہ ان کے آبائی وطن اراکان میں بچے مسلمانوں کے بارے میں انسانی حقوق کی انجمنوں کا کہنا ہے کہ خواتین کا گینگ ریپ، عورتوں بچوں اور مردوں کا قتل، مساجد، سکول اور گھروں کو جلانے کی کاروائیاں  فوج خود کر رہی ہے، یا  فوج کی سر پرستی میں یہ عمل جاری ہے۔ فوج اور بدھ دہشت گردوں نے صرف 2 ستمبر 2017 کو 2600 سے زیادہ گھر جلائے ہیں۔ لندن کی کوئین میری یونیورسٹی کے محققوں نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ میانمار حکومت کے زیرِ سر پرستی، روہنگیا کی باضابطہ نسل کشی اب آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔

بدھ مانک کھلے عام اعلان کر رہےہیں کہ ہم برما سے مسلمانوں کو اُسی طرح مٹا کر دم لیں گے جس طرح انہیں سپین سے مٹایا گیا تھا۔واقعات بتا رہے ہیں کہ  اس دعوے کو حقیقت بننے میں اب زیادہ وقت باقی نہیں ہے۔ 
      

Thursday, August 17, 2017

پاکستان کی تاریخ کے ایک منفرد کردار جنرل حمید گُل

حمید گُل صاحب جنرل ضیاٗ الحق کے باعتماد اور قریبی ساتھی اور اُن کی سوچ کے آخری نمایاں فوجی آفیسر تھے۔ انہوں نے 1956 میں فوج میں شمولیت اختیار اور 1992 میں سبکدوش ہوئے۔ اس طویل فوجی سروس میں وہ 1987 سے 1989 کے دوران 2 سال کیلئے آئی ایس آئی کے سربراہ رہے۔ لیکن وہ ہمیشہ خود کو سابق سربراہ آئی ایس آئی کہلانا پسند کرتے تھے۔ حمید گل صاحب مارچ 1987 جنرل اختر عبد الرحمان کی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے عہدے پر ترقی کے بعد آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے تھے۔ یہ عین وہی وقت تھا جب سوویت یونین نے افغانستان سے انخلا کا فیصلہ کر لیا تھا۔ جنرل صاحب کے ڈی جی آئی ایس آئی بننے کے چند دن بعد ہی افغان مجاہدین کو اسلحہ فراہم کرنے والا اوجھڑی کیمپ پراسرار طور پر تباہ ہو گیا تھا۔ جس کے نتیجے میں غیر سرکاری اندازے کے مطابق راولپنڈی اسلام آباد کے 5 ہزار معصوم لوگ لقمہ اجل بنے تھے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ ان لوگوں کی قربانی 248 سٹنگر میزائلوں کو ملک کے بہترین مفاد میں محفوظ کرنے کے لئے پیش کی گئی تھی۔ سویت یونین کے افغانستان سے انخلا کے فوری بعد امریکہ اور اس کے زیر اثر مغربی و عرب حکومتوں کی توجہ سویت یونین کی شکست سے مسقبل میں جہادیوں کی طرف سے ممکنا خطرات کی طرف منتقل ہوئی۔ جرنل حمید گل صاحب نے تجربہ کار جہادیوں کو ’’ تلف‘‘ کرنے کی بہترین حکمت عملی تیار کی۔ پہلے مرحلے پر اپنی تمام تر عسکری مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے آپریشن جلال آباد کی منصوبہ بندی کی۔ جس کے دوران 4 ہزار تجربہ کار مجاہدین شہید ہوئے لیکن جلال آباد فتح نہ ہو سکا۔ پھر ایک ایسی حکمت عملی ترتیب دی کہ چند ماہ میں ختم ہوتی نظر آنے والی کابل انتظامیہ کئی سال تک چلتی رہی۔ پھر جب کابل انتظامیہ ختم ہوئی تو بھی اقتدار جہادیوں کے ہاتھ نہیں آسکا۔ انہیں جنرل صاحب کے دور میں عرب مجاہدین کے قائد عبد اللہ عزام کو پشاور شہر میں ایک بم حملے میں شہید کر دیا گیا۔ افغان مہاجرین کے شمشتو اور جلوزئی کیمپوں پر عسکری کاروائیاں کر کے غیر افغان خصوصا عرب مجاہدین کو گرفتار کر کے عرب حکومتوں کے حوالے کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ پاکستانی مجاہدین کو "تلف" کرنے کے لئے مقبوضہ کشمیر میں جہاد شروع کرنے کی منصوبہ بندی کا سہرا بھی جرنل صاحب کے سر سجتا ہے۔ حمید گل صاحب کو جب 1989 میں ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے ہٹا کر کور کمانڈر ملتان بنایا گیا تو وہ خاصے ناراض ہوئے۔ پھر جب 1991 میں انہیں ڈائریکٹر جنرل ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا نامزد کیا گیا تو انہوں نے اسے اپنی توہین قرار دے کر ریٹائر منٹ اختیار کر لی۔ جرنل صاحب کا خیال تھا کہ ان کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کی وجہ امریکہ کا دباؤ ہے۔ شاید اسی لئے وہ اس کے بعد امریکہ کو دنیا بھر کے مسائل کا ذمہ دار قرار دیتے رہے ہیں۔ 
جہادیوں کو "تلف" کرنے کے علاوہ انکا دوسرا کارنامہ "پولٹیکل انجینیئرنگ" ہے۔ انہوں نے پاکستان کی پرائم انٹیلیجنسی کے ذریعے سیاسی اکھاڑ پچھاڑ، حکومت کی برطرفی و تشکیل اور سیاستدانوں کو اوپر اٹھانے اور گرانے کا ایسا کامیاب نظام وضع کیا، جو آج تک پوری کامیابی کے ساتھ رواں دواں ہے۔ جرنل ریٹائر حمید گل صاحب اپنی بات پورے اعتماد سے کیا کرتے تھے، لیکن 2001 کے بعد میں نے کئی بار اُن سے پرائیوٹ جہاد کے بارے میں سوال کیا تو وہ جواب دیتے ہوئے خاصے کنفیوژ دیکھائی دیے۔ اُن کی رائے کا لُب لُباب یہ تھا کہ پرائیوٹ جہاد میں کوئی ہرج نہیں اگر وہ مکمل طور پر سرکاری کنٹرول میں رہے تو۔ 
جرنل صاحب اُس خاص زہنیت کا ایک شہکار تھے جس کے خیال میں اسلام کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے، البتہ اگر کہیں اسلام اور ملکی مفاد میں ٹکراو پیدا ہو جائے تو پھر ترجیع ملکی مفاد کو دی جانی ضروری ہے۔ 
اللہ اُن کی خطاوں سے درگزر اور اُن کی مغفرت فرمائے۔ آمین

Monday, August 14, 2017

یوم آزادی اور حقیقی آزادی کی منزل کا حصول

حقیقی آزادی سے محرومی صرف پاکستان کا ہی مسئلہ نہیں ہے۔
تیسری دنیا (Third World) کے تمام ہی ممالک حقیقی آزادی سے کوسوں دور ہیں۔ ہم اس وقت ’مابعد استعماری دور‘ (Post Colonial Era) میں زندہ ہیں۔ یہ دور افریقہ اور ایشیا کے پورے سابق نو آبادیاتی خطے پر یکساں مسلط ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد جب یورپی قابضین کے لیے اپنی کالونیوں پر براہ راست قبضہ برقرار رکھنا مہنگا ہوگیا تو انہوں متبادل انتظام کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ متبادل انتظام دو مختلف سطعوں پر مشتعمل ہے۔
اول استعماری طاقتوں نے یہاں ایک اشرافیہ (Elite Class) تخلیق کی، جس کے مفادات اپنے ملک سے زیادہ استعماری طاقتوں (Colonialist) sy سے وابسطہ ہیں۔ یہ اشرافیہ سول و ملٹری نوکرشاہی، سیاستدانوں اور بڑے کاروباریوں پر مشتعمل ہے۔ (اس اشرافیہ کی تخلیق کس طرح کی گئی اور اس کو کیسے کنٹرول کیا جا رہا ہے، یہ ایک الگ اور تفصیل طلب موضوع ہے، جس پر پھر کبھی گفتگو کی جائے گی) بادی النظر میں اشرافیہ کی پہچان یہ ہے کہ ان کے بچے استعماری ممالک میں پڑھتے ہیں، ان کے کاروبار، جائیداد اور بنک اکاونٹ انہی ممالک میں ہوتے ہیں، یہ اپنے علاج کے لیے بھی استعماری ممالک کو ترجیح دیتے ہیں۔
بلواسطہ حکمرانی کی دوسری سطع بین القوامی تنظیمیں ہیں۔ جیسے اقوام متحدہ، ولڈ بینک، آئی ایم ایف، ولڈ ٹریڈ آرگنائزیشن، وغیرہ، نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں اور میڈیا۔ یہ تمام تنظیمیں اور ادارے مل کر ترقی پزیر ممالک کو اپنے جال میں جھکڑے رکھتے ہیں۔ ان کا اولین مقصد ان ممالک کے عوام کا خون نچوڑنا اور استعماریوں کے مفادات کا تحفظ ہے۔ ان تنظیموں اور اداروں کا ثانوی مقصد ہے کہ اگر کسی ملک کی اشرافیہ کا کوئی طبقہ استعماری مفادات سے روح گردانی کرنا شروع کر دے۔ یا پھر کسی ملک کے اقتدار پر اشرافیہ کے بجائے عوام کے حقیقی نمائندے پہنچ جائیں، تو انہیں روکا جائے۔
ایسی صورت میں یہ تنظیمیں کُھل کر حرکت میں آتی ہیں، پہلے مرحلے اُس ملک کو ولڈ بینک، آئی ایم ایف وٖغیرہ اقتصادی طور پر دیوالیہ کرتے ہیں۔ تاکہ عوام کو روٹی کے لالے پڑھ جائیں اور وہ حکومت سے بدظن ہوں۔ پھر انسانی حقوق کی تنظیمیں اُس ملک کے خلاف الزامات کا طوفان برپا کرتی ہیں، اور میڈیا رائے عامہ ہموار کرتا ہے۔
اس کے بعد کا مرحلہ دو مختلف انداز میں طے پاتا ہے، حالات کے مطابق یا تو مقامی اشرافیہ کی مدد سے تخہ الٹ دیا جاتا ہے۔ یا پھر اقوام متحدہ باقاعدہ فوجی کاروائی کی اجازت دیتی ہے اور پھر استعماری ممالک کی فوجیں چڑ دوڑتیں ہیں۔
یہاں تک کہ اقتدار پھر استعماری طاقتوں کی وفادار اور تابع فرمان اشرافیہ کے ہاتھ آ جائے۔
مصنوعی طور پر حالات خراب کر کے اقتدار دوبارہ مقامی اشرافیہ کے حوالے کرنے کی درجنوں مثالیں موجود ہیں، جن میں سے ایران میں ڈاکٹر مصدق اور مصر میں اخوان کی حکومت کے خلاف ہونے والے آپریشن ہمارے ہاں معروف ہیں۔
اقوام متحدہ کی زیر نگرانی جنگی کاروائیوں کی مثالیں، افغانستان میں طالبان کی حکومت کا خاتمہ، عراق میں صدام اور لیبیا میں قذافی کی حکومتوں کا خاتمہ ہمارے سامنے ہے۔
استعماری طاقتوں کی اس نئی غلامی سے آزادی کا خواب تک پورا ہونا ممکن نہیں، جب تک اس غلامی کی آگاہی عوام کو نہیں ہو جاتی اور اُن میں اس غلامی سے آزادی کے لیے بھی وہی جذبہ بیدار نہیں ہوجاتا جو استعماری طاقتوی کی براہ راست غلامی کے خلاف بیدار ہوا تھا۔ اس پورے نظام سے مکمل آگاہی کے بغیر اس سے نجاعت کے لیے کی جانے والی تمام کوششیں اندھیرے میں تیر چلانے کے مترادف ہیں۔ یہی وجہ ہے آج تک کہیں بھی معمولی سی کامیابی بھی نصیب نہیں ہو سکی ہے۔

Thursday, August 3, 2017

ایرانی انقلاب: پس منظر اور احوال، ایک جائزہ


ایرانی انقلاب کو سمجھنے کے لئے پہلے ایران کی طویل تاریخ پر ایک مختصر نظر ڈال لیتے ہیں۔ 

پارتھی سلطنت 

ایران کا قدیم نام فارس تھا، یہ دنیا کی قدیم ترین سلطنتوں میں سے ایک ہے، تاریخ کے مختلف ادوار میں اس کا جغرافیہ اور حدود اربعہ تبدیل ہوتا رہا ہے۔ تاریخ کی کتابوں اس خطے پر قدیم ترین "پارتھی سلطنت کا ذکر ملتا ہے۔
پارتھی عہد کے ایک شہزادے کا پیتل کا مجسمہ ( نیشنل میوزیم ایران)
اس سلطنت کا آغاز 249 قبل مسیح سے ہوا، اور یہ 228 عیسوی تک کسی نا کسی صورت میں موجود رہی۔ اس سلطنت کی خاص بات یہ ہے کہ اسی کے دور اقتدار میں" زرتشت" نے "پارسی مذہب" ایجاد کیا، اور پھر جلد ہی یہ ایران کا اکثریتی اور سرکاری مذہب بن گیا۔ دوسری خصوصیت فارسی زبان کا ارتقاء اور رواج ہے۔ ماہر لسانیات متفق ہیں کہ اس دور میں "کتابی پہلوی" زبان رائج ہو چکی تھی جو قدیم اور جدید کے درمیان کی وسط فارسی زبان سمجھی جاتی ہے۔ 

ساسانی سلطنت

دوسری فارسی اور سب سے اہم ، ساسانی سلطنت ہے، جس کے بانی ارد شیر اول نے پارتھیا کے آخری بادشاہ 'ارتبانوس چہارم' کو شکست دے کر سلطنت کی بنیاد رکھی۔ ساسانی سلطنت اپنے دورِ عروج میں موجودہ ایران، عراق، آرمینیا،
ساسانی بادشاہ کا مجسمہ
افغانستان، ترکی اور شام کے مشرقی حصوں، پاکستان، قفقاز، وسط ایشیا اور بہت سے عرب علاقوں پر محیط تھی۔ خسرو پرویز کے دور میں مصر، اردن، فلسطین اور لبنان بھی فتح کر لیے گئے تھے۔یہ اپنے وقت کی سب سے بڑی سپر پاور تھی۔ ایک وقت میں اس کی فوجوں نے مدمخالف سپرپاور بزنطینی سلطنت کے پایہ تخت قسطنطنیہ کی فیصلوں کے نیچے بھی ڈھیرے ڈالے رکھے ہیں۔ پارسی مذہب اس سلطنت کا سرکاری مذہب تھا۔ آج بھی فارسی زبان کی کہاوتوں اور کلاسیکی لٹریچر میں اسی سلطنت کی عظمت کا پرچار اور اس پر فخر و مباہات کا اظہار ملتا ہے۔ 
آخری ساسانی شہنشاہ "یزد گرد سوم" تھا جو دین اسلام کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے میں ناکام رہا، قادسیہ ۱ور نہاوندکی فیصلہ کن جنگوں نے ساسانیوں کی قسمت کا فیصلہ سُنا دیا تھا۔ "یزدگرد" بلخ کی طرف فرار ہواتا کہ شہنشاہ چین سے امداد لے سکے، وہ 651 عیسوی میں مرو کے قریب مارا گیا۔ یوں ساسانی سلطنت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا۔ یوں ایران اسلامی مملکت کا ایک حصہ بن گیا۔ 

ایران بعد از خلافت راشدہ

خلافت راشدہ کے بعد ایران خلافت بنو امیہ اور پھر خلافت عباسیہ کا حصہ بنا۔ عباسی خلیفہ مامون الرشید کے مقرر کردہ خراسان کے مستقل والی طاہر ابن حسین نے پہلی بار 821 عیسوی میں مرکز سے اعلیحدگی اختیار کی۔ اس کی حکومت میں موجودہ ایران، افغانستان،تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے علاقے شامل تھے۔
مسلم فاتحین کی ایک خیالی تصویر
 دار الحکومت نیشا پور تھا۔ اس کے بعد ایران کے مختلف علاقے مختلف مقامی حکومتوں کے زیر قبضہ آتے رہے، کبھی وسط ایشا کے حکمران قابض ہو جاتے، کبھی افغانیوں نے عروج حاصل کیا، تو کبھی ترک قبضہ جما لیتے۔ مختلف ادوار میں سلطنتیں اس علاقے پر قابض ہوئیں، اُن میں دولت سامانیہ، آل بویہ، سلطنت غزنویہ، سلجوقی سلطنت، ایل خانی منگول، آل مظفر ، آل جلائر شامل ہیں۔ 

تیموری عہد 

ایرانی تاریخ کا اگلا دور تیموری سلطنت کے فتح ایران سے شروع ہوتا ہے۔ وسط ایشیا کے امیر تیمور نے 1392ء میں ایک نئی جنگی مہم کا آغاز کیا تھا جو "یورش پنج سالہ" کہلاتی ہے۔ اس مہم کے دوران اس نے ہمدان، اصفہان اور شیراز فتح کیا۔
تیمور کی تصویر 
آل مظفر کی حکومت کا خاتمہ کیا اور بغداد اور عراق سے آل ِجلائر کو بے دخل کیا۔ اس طرح وہ پورے ایران اور عراق پر قابض ہوگیا۔ تیمور ایران پر قابض ہونے والا پہلا طاقتور شعیہ حکمران تھا۔ امیر تیمور نے عثمانی حکمران بایزید پر عین اُس وقت حملہ کیا جب اُس نے قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا ہوا تھا، نوبت یہاں تک آن پہنچی کا بازنطینی حکمران شہر چھوڑ کر فرار ہوگیا تھا۔ 

صفوی عہد 

بایزید پر فتح پانے کے نظرانے کے طور" صفوی حکمرانوں کے جد اعلیٰ" اور معروف صوفی "خواجہ علی" کو آذربائیجان کے شہر اردبیل اور اس کے نواح کا علاقہ دے دیا تھا۔ خواجہ علی کے پوتے شیخ جنید اور پڑپوتے شیخ حیدر نے مسند کی گدی چھوڑ کر اقتدار کے تخت کی جدوجہد شروع کی ۔ لیکن وہ اس جدوجہد کے دوران ہی مارے گئے اور صفوی سلطنت کا باقاعدہ آغاز اسماعیل صفوی کے ہات عمل میں آیا۔ 1503ء تک اسماعیل شیراز اور یزد ، استرایار تک اور مغرب میں بغداد اور موصل تک اپنی سلطنت کی حدوں کو بڑھالیا تھا۔ 1510ء میں مرو کے قریب شیبانی خان ازبک کی شکست کے بعد خراسان بھی اسماعیل کے قبضے میں آگیا۔یوں وہ ایران، عراق اور شیروان کا بلا شرکت غیرے حکمران بن گیا۔ اسماعیل صفوی سے ایران کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے جسے ایران کا شیعی دور کہا جاتا ہے۔
اس سے قبل ایران میں اکثریت سنی حکمران خاندانوں کی رہی تھی اور سرکاری مذہب بھی اہل سنت کا تھا ۔ شاہ اسماعیل نے تبریز پر قبضہ کرنے کے بعد شیعیت کو ایران کا سرکاری مذہب قرار دیا اور اصحاب رسول پر تبرا کرنا شروع کر ا دیا۔یاد رہے کہ اس وقت تبریز کی دو تہائی آبادی سنی تھی اور شیعہ اقلیت میں تھے۔ شاہ اسماعیل صفوی نے صرف یہی نہیں کیا کہ شیعیت کو ایران کا سرکاری مذہب قرار دیا بلکہ اس نے شیعیت کو پھیلانے میں تشدد اور بدترین تعصب کا بھی ثبوت دیا۔ لوگوں کو شیعیت قبول کرنے پرمجبور کیا گیا، بکثرت علماء قتل کردیئے گئے جس کی وجہ سے ہزار ہا لوگوں نے ایران چھوڑدیا۔ یوں ایران سنی اکثریت سے شعیہ اکثریت کا ملک بن گیا۔ (صفویوں کی حکمرانی ایران کے علاوہ آزربائیجان پر بھی تھی، وہاں بھی زبردستی لوگوں کو شعیہ مذہب قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔ آج بھی ایران اور 
آزربائیجان دو ہی شعیہ اکثریت کے ملک ہیں)

صفویوں کے خلاف بغاوت

صفوی سلطنت 1736 ء تک کسی نہ کسی شکل میں قائم رہی ۔ آخری طاقتور صفوی حکمران شاہ حسنین کی جانب سے اہلسنت کے خلاف حد سے زیادہ مظالم کا رد عمل سامنے آیا، افغانوں نے بغاوت کر دی۔ قندھار کے افغانوں نے غلزئی قبیلے کے سردار "حاجی میر وایس خان ہوتک" کی قیادت میں آزادی کا اعلان کر دیا۔ حاجی میر وایس خان کی وفات کے بعد اُس کے جانشیں امیر محمود نے افغانستان سے نکل کر ایران پر حملہ کیا اور اصفہان پر قبضہ کرکے صفوی سلطنت کا خاتمہ کردیا۔
جلد ہی ایران کے صوبے خراسان کے "نادر شاہ افشار" (جسے بعض مقامات پر نادر قلی بیگ بھی لکھا گیا ہے) نے صفویوی کی طرف سے افغانوں سے جنگ شروع کی۔ "مہن دوست" کے مقام پر 1729ء میں اس نے افغانوں کو شکست دے کر صفہان اور پھر شیراز پر قبضہ کر لیا، پھر جلد ہی افغانوں کو ایران سے نکال باہر کرنے میں کامیاب ہو گیا۔

نادر شاہ کا عہد 

نادر شاہ نے پہلے کچھ عرصہ کے لئے صفوی سلطنت کے احیاء کا اعلان کیا اور ایک کٹ پُتلی صفوی حکمران بھی مقرر کیا۔ لیکن پھر اپنے ہی مقرر کردہ صفوی حکمران عباس سوم کو معزول کرکے 1736ء میں نادر شاہ نے اپنی بادشاہت کا اعلان کردیا۔ جس سے قاچار سلطنت کا آغاز ہوا۔ 
نادر شاہ افشار

نادر شاہ نے اپنے عہد میں ایران کی عظمت رفتہ کو بحال کر دیا، وہیں صحابہ اکرام پر" تبرا" کرنے کی صفوی روایت کو ختم کر کے اہلسنت کے ساتھ بہتر سلوک کا آغاز کیا، جس پر شعیہ اس کے مخالف ہو گئے، جگہ جگہ اس کے خلاف بغاوتیں پھوٹنے لگیں۔ اسی دوران جب وہ داغستان کے پہاڑوں میں بغاوت کچلنے میں مصروف تھا ایک رات اس کے محافظ دستے کے شعیہ سپاہیوں نے اس کے خیمےمیں گُھس کر اسے سوتے میں قتل کردیا۔ نادر شاہ کے بعد ایران ایک بار پھر انتشار اور طوائف الملوکی کا شکار ہوا۔ افشار خاندان کی محدود حکومت اگرچہ 1796ء تک قائم رہی، تاہم یہ حکومت افغانستان کے احمد شاہ ابدالی کے زیر اثر تھی۔

قاچار عہد

افشار خاندان کے زوال کے بعد کچھ علاقوں میں "کریم خان زند" نے "زند خاندان" کی حکومت کی بیاد ڈالی جو 1750 سے شروع ہو کر 1794 تک قائم رہی۔ "محمد خان قاجار" نے پہلے 1794 میں زند خاندان کے "لطفعلی خان زند" کو شکست دے کر زند خاندان کی حکومت کا خاتمہ کیا، پھر دو سال بعد افشار خاندان کے دارالحکومت مشہد پر قبضہ کر کے افشار خاندان کی حکومت کا بھی خاتمہ کر دیا۔ 
قاچار عہد میں جاری ہونے والا کرنسی نوٹ
اس کے بعد پورے ایران اور ملحقہ علاقوں پر قاجان خاندان کی بلاشرکت غیرے حکمرانی کا آغاز ہو گیا۔ قاجار خاندانی کی ایران پر حکمرانی 1925 تک برقرار رہی۔ قاجار خاندان کے عہد میں ہی پورا خطہ یورپی استعمار کے قبضے میں آ گیا۔ ان کے توسیع پسندانہ عزائم نے ایران کو موجودہ سرحدوں میں مقید کیا، وسط ایشیائی علاقوں پر روس نے پنجے گاڑ دیے۔ شام پر فرانس قابض ہو گیا۔ جبکہ عراق، عمان اور ہندستان پر برطانوی راج قائم ہو گیا۔
ایران کے اندر ایک جانب روسی لابی متحرک ہو گئی اور دوسری جانب برطانیہ کے حاشیہ بردار اقتدار کے ایوانوں میں برجمان ہو گئے۔ قاجار خاندان کے آخری دنوں میں برطانیہ اور روسی لابی کی کشمکش انتہائی عروج پر تھی۔ 

پہلوی عہد کا آغاز

قاچار خاندان کے آخری فرمانروا احمد شاہ قاجار کا جھکاو روس کی جانب ہوا تو برطانیہ نے ایک فوجی افسر رضا خان کے ذریعے بغاوت کروا دی۔ چار سال تک کشمکش چلتی رہی، جس کے بعد برطانوی لابی فتح بن کر ابھری اور رضا خان 1925ء میں "رضا شاہ پہلوی" کا لقب اختیار کر کے بادشاہ بن گیا۔ یوں ایران میں پہلوی خاندان کی حکومت کا آغاز ہو گیا۔
رضا خان
رضا شاہ کے 16 سالہ دور اقتدار (1925ء تا 1941ء) میں ان کے منصوبہ جات نے ایران کو ایک ترقی یافتہ ملک بنا دیا۔ ان کی صنعتی اصلاحات سے پیشہ ور متوسط اور صنعتوں میں کام کرنے والے طبقات ابھرے۔ اسی دوران تیل کی دریافت ہوئی اور اینگلو-ایرانین آئل کمپنی کا قیام عمل میں آیا، جس کے بعد لوگوں کو معیار زندگی بھی بلند ہوا۔ پہلوی خاندان کی حکومت میں ملک مکمل طور پر مغربی رنگ میں ڈھلنا شروع ہو گیا۔ حکومت نے جدیدیت کے نام پر خالص مغربیت کی ملک میں آبیاری شروع کر دی، ماضی سے رشتی کاٹنے کی خاطر ملک کا نام فارس سے بدل کر ایران کر دیا گیا۔ اس تمام کوشش کے خاطر خواہ نتائج برامد ہوئے، ماضی کی روایات اور ثقافت کو بڑے شہروں سے دیس نکالا مل گیا۔ ایران کے بڑے شہروں اور یورپی شہروں کے طرز زندگی میں فرق تلاش کرنا مشکل تھا۔ اس کا ایک اثر یہ بھی نکلا کہ مذہب کو ایک ثانوی اور نمائشی چیز سمجھا جانے لگا۔

رضا شاہ سے محمد رضا شاہ 

دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمن انجنئرز اور تکنیکی ماہرین کو ملک بدر کرنے کے برطانوی مطالبہ پر رضا شاہ نے پس پیش کی تو برطانیہ اور روس نے اپنی فوجیں ایران میں داخل کر دیں۔ اگست 1941ء میں ایران پر قبضہ کر نے کے بعد رضا شاہ کو گرفتار کر کے ملک بدر کر دیا گیا۔ اور کچھ عرصے بعد رضا شاہ کے صاحبزادے محمد رضا پہلوی کو بادشاہ مقرر کر دیا گیا۔
محمد رضا شاہ، ، رضا شاہ پہلوی کی گود میں
چونکہ برطانیہ کی لابی ایران میں بہت مضبوط تھی۔ اس لئے اُس نے 1943 تک اپنی فوجیں نکال لیں۔ لیکن روس نے فوجیں نکالنے کے بجائے اپنے زیر قبضہ مشرقی صوبوں میں اعلیحدگی کی تحریکیں کھڑی کر دیں۔ بعد ازاں روس نے مئی 1946ء میں اپنی فوج کو نکال لیا، لیکن اس عرصے میں روسی پشت پناہی میں ایک مضبوط کیمونسٹ نواز لابی ایران میں قائم ہو گئی۔

ایران میں اشتراکی اثرات


اسی دوران 1944ء میں مجلس کے انتخابات ہوئے، جس میں خاصی تعداد میں روس نواز بھی منتخب ہو گئے، لیکن شاہ نے مختلف حیلے بہانوں سے انہیں کام نہیں کرنے دیا۔ عام خیال یہی تھا کہ صنعتوں کے مزدور طبقے اور طلبہ میں کیمونسٹ عناصر تیزی سے اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے سیاست میں کیمونسٹ نواز عنصر غالب آتا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں 1949ء میں شاہ پر ایک پراسرار قاتلانہ حملہ ہوا، جس کے بعد سیاست، سیاسی جماعتوں پر پابندیاں عائد کر دی گئیں، اور شاہ کے آئینی اختیارات میں اضافہ کیا گیا۔

ایرانی اشتراکیوں کا ایک پوسٹر
1951 میں سیاست سے پابندی ہٹی تو ڈاکٹر مصدق مجلس میں 12 کے مقابلے میں 79 ووٹ لے کر وزیر اعظم بن گئے۔ مصدق اگرچہ سیکولر سیاستدان سمجھے جاتے تھے لیکن اُن نے کیمونسٹوں کی سب سے مشہور پالیسی پر عمل کرتے ہوئے تیل کی صنعت کو قومیانے کا اعلان کر کے مغرب کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ جس کے فورا بعد محمد رضا شاہ ملک سے فرار ہو گیا۔

اشترکیوں کے خلاف سی آئی اے کی مہم 

بجائے حالات پر قابو پانے کے ملک سے فرار ہونے کو امریکہ اور برطانیہ نے رضا شاہ کی نا اہلی سے تعبیر کرتے ہوئے، خود میدان میں آنے کا فیصلہ کیا۔ امریکی سی آئی اے اور برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس نے اگست 1953ء میں مصدق کو ہٹانے کا آپریشن ترتیب دیا جسے آپریشن ایجیکس (Operation Ajax) ترتیب دیا۔ جس میں ایرانی وزیر اعظم ڈاکٹر مصدق کو گرفتار کیا گیا، جسے پہلے پہلے جیل میں ڈال دیا گیا اور پھر تمام عمر کے لیے گھر پر نظر بند کر دیا گیا۔ ڈاکٹر مصدق کبھی کسی شخص سے نہیں مل پایا۔
ڈاکٹر مصدق کو گرفتار کیا جا رہا ہے
مصدق حکومت کے خاتمے کے بعد ایک بار پھر مغربی لابی کی گرفت ایران پر مضبوط دیکھائی دینے لگی۔ محمد رضا شاہ واپس ایران آگیا۔اس عرصے میں مغربی ذرائع ابلاغ نے ایرانی ترقی کے خوب ڈھنڈورے پیٹے۔ ملکیت زمین، عورتوں کے حق رائے دہی اور ناخواندگی کے خاتمے، ایران میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لیے عظیم تر منصوبوں، خوشحالی کے دور دورے کی خبریں مغربی ذرائع ابلاغ میں روزانہ کی بنیاد میں دی جاتی تھیں۔ مغربی اخبارات اور ٹھنک ٹینک ایران کو مشرق وسطٰی کی بڑی اقتصادی و فوجی قوت ثابت کرنے کے لیے زمین و آسمان کے قلابے ملایا کرتے تھے۔

اشتراکی سیاست کے اثرات

لیکن ایران کے اندر اشتراکی نظریات کی حامل تودہ پارٹی کی بڑتی ہوئی مقبولیت شاہ اور اُس کے مغربی سرپرستوں کے لئے وبال جان بنی ہوئی تھی۔ کیمونسٹوں پر کئی بار الزام عاید ہوا کہ انہوں نے شاہ اور اس کے صاحبزادوں کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔
اشتراکیوں کا ایک بینر
 شاہ کی حکومت نے خفیہ جاسوسی کے ادارے ساواک کے ذریعے اشتراکی عناصر کو بے دردی سے کچلنے کی سعی کی گئی جس کے وران تودہ پارٹی کے ہزاروں اراکین کا قتل عام کیا گیا۔ تاہم اشتراکیوں کا زور بڑھتا ہی چلا گیا۔ جس سے خائف ہو کر شاہ نے ایک معاہدے کے تحت امریکی فوجی مشن کو ایران بلایا۔

روح اللہ موسوی خمینی کی رونمائی

28 اكتوبر 1964ء كو شاہ نے اىک قانون كى منظورى دى جس كے تحت امرىكى فوجى مشن كے افراد كو وہی حقوق دیے گئے جو وىانا كنونشن كے تحت سفارتكاروں كو حاصل ہیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ روایتی شعیہ علما میں سے کوئی ایرانی سیاست میں نمودار ہوا۔ قم شہر کے مدرسہ فىضىہ کے ایک استاد "روح اللہ موسوی خمینی" نے مدرسے میں ایک تقریر کی۔ یہ تقریر تو شاید کم لوگوں نے ہی سُنی ہو گی، لیکن اس کا متن باقاعدہ اخبارات کو جاری کیا گیا جس کی وجہ سے یہ ایران میں موضوع بحث بنی۔ تقریر میں کہا گیا تھا کہ "مىرا دل درد سے پھٹا رہا ہے میں اس قدر دل گرفتہ ہوں کہ موت كے دن گن رہا ہوں اس شخص (رضاشاہ پہلوی) نے ہمیں بىچ ڈالا ہمارى عزت اور ایران كى عظمت خاک میں ملا ڈالی،اہل ایران كا درجہ امریكى كتے سے بهى كم كر دیا گیا ہے، اے لوگو! تمہیں خبردار كرتا ہوں یہ غلامى مت قبول كرو۔"
خمینی کی شاہ مخالف تقریر کی پریس ریلیز کے ہمرا جاری کی گئی تصویر
شاہ مخالف تقریر کرنے پر روح اللہ موسوی خمینی پر مقدمہ قائم ہوا، اُنہیں گرفتار کر لیا گیا، لیکن کچھ دنوں بعد وہ حکومت کی جازت سے تہران کے مہر آباد ہوائى اڈے سے ترکی چلے گئے۔ اُن کے حامی کہتے ہیں کہ انہیں جلا وطن كیا گیا تھا ، تاہم اُس وقت ایران میں کوئی ایسا قانون موجود نہیں تھا جس کے تحت کسی مجرم کو بغیر سزا سنائے جلا وطن کیا جا سکے۔ یہ بھی یاد رہے کہ کمیونسٹوں کے علاوہ کسی اور کو شاہ مخالف تحریر یا تقریر پر چند سال سے زیادہ کی سزا نہیں سُنائی گئی تھی۔

 روح اللہ موسوی خمینی کی جلا وطنی

روح اللہ موسوی خمینی نے ایران سے نکلنے کے بعد کچھ دنوں تک ترقی میں قیام کیا ، اور پھر عراق منتقل ہو گئے، جہاں عرب قوم پرست بعث پارٹی نے نیا نیا اقتدار سنبھالا تھا اور کرنل عبدالسلام عارف صدر بنے تھے۔
عراق کے شہرنجف میں خمینی کی رہائشگاہ
 روح اللہ موسوی خمینی کی عراق میں سکونت کے روران ہی 1968ء میں وہاں بعث پارٹی کے" احمو حسن البکر" صدر بنے۔ جن کے دست راست صدام حسین تھے۔ روح اللہ موسوی خمینی عراق میں 4 اکتوبر 1965ء سے 6 اکتوبر 1978ء مقیم رہے جو 13 سال بنتے ہیں۔

کمیونسٹوں کے خلاف کاروائی اور پُرامن مظاہروں کا آغاز 


اس دوران محمد رضا شاہ نے 1968 میں ایک بار پھر کمیونسٹوں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا۔ کمیونسٹ پارٹی کو توڑ دیا گیا۔ ملک بھر کی ٹریڈ یونیوں پر پابندی لگا دی۔ کمیونسٹ لیڈر روپوش ہوگئے تو ساوک نے اُن کے اہلخانہ کو کو تختہ مشق بنایا۔ جس کے بعد اشتراکی عناصر دوبارہ کبھی اپنے نام سے ظاہر نہیں ہوئے۔ 
تہران یونیورسٹی سے شروع ہونے والے مظاہرے کا ایک پوسٹر
ایران نے1971ء میں ایرانی شہنشاہت کا ڈھائی ہزار سالہ جشن بڑی دھوم دھام سے منایا۔اس تقریب میں پاکستان سے جنرل یحییٰ اور دنیا کے سربراہان مملکت شریک ہوئے۔ اس جشن کے بعد سے دارلحکومت تہران میں شاہ مخالف مظاہروں کا آغاز ہو گیا۔ یہ مظاہروں کا نقطہ آغاز تہران یونیورسٹی تھی جو اُس وقت کمیونسٹ طلبہ کا گڑھ سمجھی جاتی تھی۔ پھر ان مظاہروں کی تعداد اور ہجم میں روز بروز اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ 

سویت یونین کے عزائم اور اہداف


1970 عشرے میں جس وقت ایران میں شاہ مخالف مظاہرے شروع ہوئے، وہ وقت اشتراکی سویت یونین کی توسیع پسندی کے عروج کا زمانہ تھا۔ ایران کے پڑوس میں اس کے علاوہ واحد شعیہ اکثریتی ملک آزربائیجان سویت یونین کے زیر تسلط تھا اور وہاں سے اشتراکیت مہم پوری شدت سے چلائی جارہی تھی۔ دوسری جانب ایران کے علاوہ فارسی بولنے والے تاجکستان اور افغانستان میں بھی اشتراکیوں کا طوطی بول رہا تھا۔ جہاں سے اشتراکیت پر مبنی کتابیں اور اشتہارات دھڑا دھڑ ایران میں پہنچ رہے تھے۔ ایرانی کیمونسٹوں کو ایران کی سرحدوں سے نکلتے ہی پناہ مل جاتی تھی۔ جس کی وجہ سے ایران میں کمیونسٹوں کی سرکوبی کی تمام کوششیں رائیگاں ثابت ہو رہی تھیں۔
روسی افواج دریائے آمو کے پل سے افغانستان میں داخل ہو رہی ہیں
یہ حقیقت بھی مدنظر رہے کہ سویت یونین کا اُس وقت سب سے اہم ہدف گرم پانیوں تک رسائی تھا۔ جس کا سب سے مختصر اور موثر ترین راستہ بحیرہ قزوين (Caspian Sea) کے ذریعے خلیج فارس (Persian Gulf) تک تھا۔ جبکہ متبادل راستہ افغانستان کے ذریعے پاکستان سے ہوتے ہوئے بحیرہ عرب ہو سکتا تھا۔ 
اُس وقت کے معروضی حالات بتاتے ہیں کہ روس دونوں راستوں کے ذریعے گرم پانیوں تک پہنچنے کی سر توڑ کوشش کر رہا تھا۔ یہ کوشش متعلقہ ممالک میں موجود اشتراکی عناصر کی مدد سے جاری تھی۔ سویت یونین کی ایما اور پیسے کے زور پر افغانستان میں خلق اور پرچم کے نام سے اشتراکی متحرک تھے۔ جنہوں نے 1973 میں اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا، جس کے بعد وہ افغانستان میں کمیونزم کو رائج کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ دوسری جانب ایران میں بھی کیمونسٹ عناصر امریکہ نواز محمد رضا شاہ کے خلاف متحرک تھے۔ 
ایران کے اندر شاہ مخالف مظاہروں کی شدت میں روز بروز اضافہ ہو رہا تھا۔ جن میں طلبہ کے ساتھ ساتھ صنعتوں کے مزدور اور عوام کی شرکت بڑھتی جا رہی تھی۔ 1976 تک مظاہرے تہران سے نقل کر دیگر شہروں میں بھی ہونے لگے تھے۔ لیکن دور دور تک شاہ کی حکومت کو ان مظاہروں سے کوئی خطرہ دیکھائی نہیں دیتا تھا۔ 

اشتراکیوں کی جگہ مذہبی عناصر مودر الزام

1977ء میں تبدیلی یہ دیکھی گئی کہ مغرب نواز اخبارات نے اچانک مظاہروں کے لیے کیمونسٹوں کے بجائے مذہبی عناصر کو مورود الزام ٹہرانا شروع کر دیا۔ مظاہروں اور شاہ کے خلاف سازشوں کا مرکز کیمونسٹ تودہ پارٹی کے بجائے "قم" کے مذہبی رہنماوں کو قرار دیا جانے لگا۔ 
صرف میڈیا ہی نہیں بلکہ مگرب نواز بیوروکریسی کے بیانات میں بھی یہی الزامات کثرت سے دہرائے گئے۔ اچانک سرکاری رپورٹوں میں بیان کیا جانے لگا کہ شاہ مخالف اور ترقی مخالف تمام اقدامات عراق کے شہر نجف میں موجود "روح اللہ موسوی خمینی" کے اشاروں پر ہو رہے ہیں۔ اسی اثنا میں ایران کے معتدل و مقبول ترین شعیہ رہنما، سکالر، سیاسی فلسفی اور انقلاب کے داعی علی شریعیتی صرف پالیس سال کی عمر میں پُر اسرار طور پر قتل ہو گئے۔ ایک طرف میڈیا اور بیوروکریسی کے پئے در پئے الزمات اور دوسری جانب علی شریوتی کے قتل نے دو سال کے اندر بیرون ملک موجود سابق غیر معروف مذہبی اُستاد "روح اللہ موسوی خمینی" کو ایران بھر میں مشہور کر دیا۔
مجاہدین خلق کے مظاہرے میں اٹھائے گے پلے کارڈز
ایک طرف مظاہروں کی آڑ میں عوام پر حکومت کا ناقابل بیان جبر تھا اور دوسری جانب حکومت کی مخالفت کا سزاوار "روح اللہ موسوی خمینی" کو قرار دینا۔ تیسری جانب اس دوران "روح اللہ موسوی خمینی" کے ایرانی قوم کے نام پیغامات پر مبنی ہینڈ بلز تھے جو اچانک ہزاروں کی تعداد میں تقسیم ہو جاتے تھے۔ لیکن کبھی معلوم نہ ہو سکا کہ انہیں کون چھاپتا تھا ان ہی وجوعات کی بنیاد پر ایران میں "خمینی" کا نام ایک نجات دہندہ کے طور پر مشہور ہوگیا۔

روح اللہ موسوی خمینی کی فرانس منتقلی اور امریکہ سے رابطے

6 اکتوبر 1978ء کو "روح اللہ موسوی خمینی" نامعلوم وجوعات کی بنا پر فرانس منتقل ہوگئے۔ جہاں انہوں نے پیرس کے نواح میں واقعے قصبے "نوفل لوش تو" میں سکونت اختیار کر لی۔ حیرت انگیز امر یہ تھا کہ محمد رضا شاہ خطے میں مغرب کا سب سے بڑا اتحادی تھا۔ فرانس اور امریکہ شمالی اوقیانوسی معاہدے کی تنظیم نیٹو (NATO - The North Atlantic Treaty Organization) کے باقاعدہ ممبر تھے۔ لیکن اس کے باوجود فرانس نے شاہ محمد رضا شاہ کے سب سے بڑے مخالف اور بقول ایرانی بیوروکریسی کے سازشوں کے سب سے بڑے سرغنہ کو اپنے ہاں پناہ دے دی۔ نہ صرف پناہ دی بلکہ انقلاب کے بعد کے سرکاری موقف کے مطابق "روح اللہ موسوی خمینی" فرانس میں سکونت کے دوران لمحہ با لمحہ شاہ مخالف تحریک کی مکمل رہنمائی کرتے رہے تھے۔ 
فرانس میں سکونت کے دوران "روح اللہ موسوی خمینی" کی سرگرمیوں کے حوالے سے کوئی مستند اطلاعات نہیں ہیں۔ تاہم حال ہی میں امریکہ کی جانب سے ڈی کلاسیفائیڈ کی جانے والی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ اُن کا امریکی حکام سے گہرا رابطہ رہا تھا۔ ڈیکلاسیفائڈ ہونے والی دستاویزات جو سفارتی پیغامات، پالیسی میموز اور میٹنگز کے ریکارڈز پر مشتمل ہیں، جو امریکہ کے روح اللہ خمینی کے ساتھ خفیہ رابطوں کے متعلق خاصا تفصیل سے بتاتے ہیں۔ اس حوالے سے بی بی سی کی ایک روپوٹ میں انکشاف کیا گیا ہے، کہ "روح اللہ موسوی خمینی" نے اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر کی انتظامیہ کو تجویز دی تھی کہ "اگر صدر کارٹر فوج پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے ان کے اقتدار پر قبضے کو ہموار بنا دیں تو وہ قوم کو پرسکون کر دیں گے۔ استحکام قائم ہو جائے گا اور ایران میں امریکی مفادات اور شہریوں کو تحفظ حاصل ہو گا۔" 
امریکہ کے لیے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ مظاہروں اور ہڑتالوں کی وجہ سے تیل کی ترسیل میں رکاوٹ پیدا ہو چکی تھی۔ جو امریکہ کے خیال میں سویت یونین کے ساتھ کسی ممکنا محاذ آرائی کی صورت میں بڑے نقصان کا باعث بن سکتی تھی۔ 
اپنے ایک پیغام میں "روح اللہ موسوی خمینی" وائٹ ہاؤس کو کہا کہ وہ "اس اہم اتحادی (محمد رضا شاہ کی طرف اشارہ) کے جانے پر پریشان نہ ہو جس کے اس کے ساتھ 37 سال سے تعلقات ہیں۔ ہم یقین دہانی کراتے ہیں کہ ہم بھی دوست ہی رہیں گے۔" 
خمینی نے اپنے ایک اور پیغام امریکی حکومت کو ارسال کیا جس میں کہا گیا کہ "آپ دیکھیں گے کہ ہماری امریکیوں سے کوئی خاص دشمنی نہیں ہے۔ اسلامی جمہوریہ کی بنیاد ’انسانی ہمدردی پر قائم کی جائے گی، جس سے ساری انسانیت کے 
امن اور سکون کو فائدہ پہنچے گا۔"

روح اللہ خمینی نے اپنے ایک پیغام میں امریکی حکومت کو بتایا کہ "خمینی نے امریکہ کو بتایا تھا کہ وہ امریکی موجودگی
کو ضروری سمجھتے ہیں تاکہ سویت اور برطانوی اثر کو کم کیا جا سکے۔" 
روح اللہ خمینی نے ایک مرتبہ امریکیوں کے تیل کی ترسیل کے حوالے سے موجود خدشے کو دور کرتے ہوئے واشنگٹن بھیجے گئے ایک پیغام میں لکھا تھا کہ "جو بھی ہم سے صحیح قیمت پر تیل خریدا گا ہم اسے بیچیں گے۔ اسلامی جمہوریہ قائم ہونے کے بعد دو ممالک یعنی جنوبی افریقہ اور اسرائیل، کے علاوہ سب کے لیے تیل کا بہاؤ جاری رہے گا۔" پیغام میں خمینی کا کہنا تھا کہ "ملک کی ترقی کے لیے ایران کو دوسروں کی امداد کی ضرورت ہے، خصوصاً امریکیوں کی۔"
(دستاویزات جاری ہونے کے بعد ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ نے انہیں جھوٹا قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان میں تبدیلی کی گئی ہے۔ تاہم ایرانی حکومت نے ان کے مقابلے میں کوئی اصلی دستاویز جاری نہیں کی ہے۔)
بی بی سی کی مکمل رپورٹ اس لنک پر دیکھی جا سکتی ہے، 
www.bbc.com/news/world-us-canada-36431160

امریکی خفیہ سفارتکاری اور خمینی کی ایران واپسی

"روح اللہ موسوی خمینی" کے پیغامات کے بعد امریکی صدر نے فضائیہ کے جنرل رابرٹ ای ہیوئزر کو پُراسرار مشن پر تہران بیجا۔ جس نے اگلے چند ہفتوں کے دوران محمد رضا شاہ اور ایران کی تینوں مسلح افواج کے سربراہوں سے درجنوں ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں کا ذکر تو اُس وقت کے اخبارات میں تفصیل سے ملتا ہے لیکن ان ملاقاتوں کے مندجات کبھی منظر عام پر نہیں آ سکے۔ (خیال رہے کہ اس وقت ایران کی فوج 4 لاکھ اہلکاروں پر مشتعمل تھی جس کا زیادہ تر انحصار امریکی اسلحے اور مشاورت پر تھا۔)
شاہ کی ملک سے روانگی کا اعلان کرتا اخبار
امریکی جنرل رابرٹ ای ہیوئزر کے خفیہ مشن کے بعد ایران کے بادشاہ محمد رضا شاہ نے بیرون ملک چھٹیاں منانے کا اعلان کر دیا۔ جس کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ انہیں امریکی صدر کارٹر نے قائل کیا تھا۔ شاہ کو تہران کے ہوائی اڈے سے پورے شاھی پروٹوکول اور فوجی گارڈ آف آنر کے ساتھ کے ساتھ رخصت کیا گیا۔ شاہ رخصتی کے ساتھ ہی پیریس میں "روح اللہ موسوی خمینی" چیف آف سٹاف اور امریکی حکومت کے درمیان فرانس میں مذاکرات شروع ہو گئے، جو دو ہفتے جاری رہے، امریکی دستاویزات کے مطابق شاہ کے ایران سے روانہ ہونے کے دو دن بعد ہی "روح اللہ موسوی خمینی" کے نمائندے کو خوشخبری سُنائی گئی تھی کہ ایران کی فوج کے اہم جنرلز ملک کے سیاسی مستقبل کے متعلق لچک دیکھانے کو تیار ہو گئے ہیں"۔

خمینی کا ائیر فرانس کے خصوصی طیارے سے تہران پہنچنے کا منظر
انہی کامیاب مذاکرات کے بعد "روح اللہ موسوی خمینی" ائیر فرانس کے چارٹر جہاز کے ذریعے صحافیوں کے ہمرا تہران روانہ ہوئے تھے، جہاں لاکھوں لوگوں نے اُن کا استقبال کیا تھا۔

افغانستان اور ایران کے متضاد اتفاقات 

ہو سکتا ہے کہ یہ محض حُسن اتفاق ہو کہ دسمبر 1979 کو سویت فوجوں نے افغانستان میں قدم رکھا اور اس کے فورا بعد امریکی صدر نے ایرانی بادشاہ اور خطے میں اپنے سب اہم حریف محمد رضا شاہ کو عارضی طور پر ملک چھوڑنے پر آمادہ کر لیا۔ دوسری جانب ایک امریکی جنرل نے امریکی اثر تلے دبی ہوئی ایرانی فوج کے سربراہوں کو شاہ سے منحرف ہونے پر قائل کر لیا۔ جبکہ تیسری جانب شاہ مخالف مذہبی رہنما کے نمائندے سے دو ہفتے طویل مذاکرات مکمل کر لئے۔ یوں افغانستان میں روسی فوج کے داخلے کے صرف ایک مہینے بعد 17 جنوری 1979 کو "روح اللہ موسوی خمینی" ایران میں ایک انقلاب کے نقیب بن کر تہران پہنچ گئے۔ 

عبوری حکومت اور انقلابی کونسل 

ایران پہنچنے کے فوری بعد11 فروری 1979 کو ایک عبوری حکومت تشکیل دی گئی جس میں معروف ایرانی سکالر اور ماہر تعلیم مہدی بازرگان کو عبوری وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ (کہا جاتا ہے کہ اس مدت میں بھی درپردہ تمام اختیارات "روح اللہ موسوی خمینی" کے ہاتھ میں ہی تھے۔)
مہندی بازگان خمینی کے ہمرا خطاب کرتے ہوئے
 اس دور میں ایران کے اندر "رد انقلاب" کی اصطلاع ایجاد ہوئی، ہزروں افراد کو انقلاب مخالف قرار دے کر قتل کر دیا گیا۔ اب تک کا انقلاب ایران جدت پسندوں، مذہبی افراد اور کیمونسٹوں سب کا انقلاب تھا۔ اس میں شعیہ اور سنی کی بھی کوئی تفریق نہیں تھی۔ حالات میں تبدیلی اُس وقت آئی جب روح اللہ خمینی نے "قم" پہنچ کر شعیہ مذہبی رہنماوں پر مشتعمل اسلامی انقلابی کونسل قائم کرنے کا اعلان کیا۔ عدالت عالیہ کے ارکان، سپہ سالار اور چیف آف اسٹاف کی تقرری اور برطرفی، پاسداران کے سربراہ، قومی تحفظ کی مجلس اعلیٰ کی تشکیل، بری بحری اور فضائی افواج کے سپہ سالاروں، جنگ وصلح کا اختیار، صدر کے انتخاب کی توثیق کے تمام اختیارات اس کونسل کے حوالے کر دیے گئے۔

عوامی انقلاب پر ولایت فقیہ کا قبضہ

 اسلامی انقلابی کونسل کے قیام پر تہران یونیورسٹی میں ایک لاکھ سے زیادہ لڑکوں اور لڑکیوں کے اجتماع میں مطالبہ کیا گیا کہ کابینہ میں تمام جماعتوں مذاہب اور فرقوں کو نمائندگی دی جائے۔ تو اس پر روح اللہ خمینی نے کہا کہ نسلی اور مذہبی اقلیتوں کی کابینہ میں شمولیت کا مطالبہ کرنے والے طلبا بے دین اور اسلام دشمن ہیں۔ (بحوالہ انقلاب ایران از سبط حسن) پریس کی آزادی بھی سلب کر لی گئی۔ 
شعیہ علما کی ایک میٹنگ کا منظر
ریاست کی نوعیت کے سوال پر ریفرینڈم کے موقعہ پر روح اللہ خمینی نے فتویٰ صادر کیا کہ رائے دہندگان سے فقط یہ دریافت کیا جائے کہ وہ اسلامی ری پبلک کے حق میں ہیں کہ نہیں۔ ریفرینڈم کے بعد اعلان کر دیا گیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے سربراہی اور قیادت شعیہ مذہب کے مطابق "ولایت فقیہ" کے سپرد ہو گی۔ان اقدامات کے بعد ایران میں انقلاب کا خواب بڑی حد تک دھندلاتا چلا گیا۔ 

امریکی سفارتخانے پر قبضہ

عوام میں انقلاب سے بیزاری اور بے چینی میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ ولایت فقیہ کے خلاف آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں تو اسی دوران روح اللہ خمینی کی قربت رکھنے والے طلبہ کے ایک گروپ نے اچانک 4 نومبر 1979 کو امریکی سفارتخانے پر حملہ کر دیا اور سفارتخانے کے عملے کو یرغمال بنا لیا۔ 
طلبہ کا ایک گروپ امریکی سفارتخانے پر قبضے کے لیے گیڈ پھلانگ رہا ہے
خیال رہے کہ جب ایران میں عبوری حکومت قائم ہوئی تھی اُس وقت 50 ہزار سے زیادہ امریکی ایران میں موجود تھے۔ جن میں ملٹری مشنز کے اہکار، تکنیکی عملہ اور کاروباری افراد بھی شامل تھے۔ لیکن یہ سب نہایت پُرامن طور پر ایران سے روانہ ہو گئے تھے۔ کسی نے ان کی روانگی میں رکاوٹ ڈالی نہ ہی کسی امریکی کو کوئی نقصان پہنچا تھا۔ لیکن نومبر میں ایرانی طلبہ کے مخصوص گروپ نے شاہ کو امریکہ میں پناہ دیے جانے کے خلاف اچانک امریکی سفارتخانے پر چڑھائی کر دی، جبکہ محمد رضا شاہ کو پناہ بھی اس وقعے سے کئی مہینے پہلے دی گئی تھی۔
امریکی سفارتخانے کا یہ بحران 444 دن یعنی ایک سال 2 ماہ اور 2 ہفتے تک جاری رہا۔ اس دوران امریکہ کی جانب سے ایران کو تباہ کرنے کی بار بار دھمکی دی گئی۔ ایک بار امریکی صدر جمی کارٹر نے امریکی فوج کو ایران پر حملہ کر کے سفارتی عملے کو ریسکیو کرنے کا حکم بھی جاری کر دیا۔ جس کے بعد دو امریکی بحری جنگی جہاز یو ایس ایس کرول سی (USS Coral Sea) اور نمٹز (USS Nimitz) ایرانی ساحلوں کی جانب روانہ ہوگئے۔ امریکی فوج نے تہران کے امریکی سفارتخانے میں پھنسے عملے کو نکالنے کے لیے 24 اپریل 1980 کو آپریشن ایگل کلیو ( Operation Eagle Claw) لانچ کیا جو بُری طرح ناکام ہو گیا۔ اس آپریشن کے دوران 8 امریکی کمانڈوز مارے گئے اور دو گن شپ ہیلی کپٹر تباہ ہوئے۔ دوسری جانب صرف ایک ایرانی سولین مارا گیا۔ 
سفارت خانے کا قبضہ چھڑانے کے لیے امریکی حملے میں تباہ ہیلی کپٹر اور لاشیں
(یاد رہے کہ اس سے پہلے دسمبر 1929 میں محمد رضا شاہ پہلوی امریکہ سے مصر منتقل ہو چکا تھا، جہاں 27 جولائی 1980 کو کینسر کے باعث اُس کا انتقال ہو گیا تھا۔)

امریکی سفارت خانے پر قبضے کے اثرات

تمام معاصر تجزیہ نگار اس امر پر متفق ہیں کہ امریکی سفارتخانے کے محاصرے، اس پر امریکی دھکیوں اور ناکام حملے نے ایران کو مضبوط قوم اور "روح اللہ موسوی خمینی" کو ایران کی ایک طاقتور شخصیت اور متفقہ لیڈر بنا دیا۔ اس دوران عوام کی مکمل تائید "روح اللہ موسوی خمینی" کو حاصل ہو گئی۔
امریکی حملے کے خلاف مظاہرہ اور خمینی کی تصویر
ولایت فقیہ کے خلاف اٹھنے والے آوازیں امریکی دھمکیوں کے شور میں دب گئیں تھیں۔ اسی عرصے میں حکومت اور فوج کے اندر ولایت فقیہ کے حامی کٹر شعیہ عناصر کو مضبوط کیا گیا، اور اس کے بر خلاف خیالات رکھنے والوں کو نکال باہر کر دیا گیا۔ چونکہ اس دوران روز نئی امریکی دھمکی آ جاتی اور امریکی حملے کا ہر لمحہ خطرہ موجود تھا، اس لیے ان اقدامات کے خلاف بات کرنا ملک دشمنی سمجھی جاتی تھی۔

سُنی بغاوت اور ایران عراق جنگ

امریکی سفارتخانے کا ایشو حل ہونے سے پہلے ہی ایرانی حکومت نے سُنی کردوں اور اہواز کے سنی عربوں کی جانب سے شیعہ ولایت فقیہ کے خلاف اپنے مطالبات پیش کر دیے۔ جسے ایرانی حکومت نے بغاوت قرار دیتے ہوئے پاسداران انقلاب کی مدد سے سختی سے کُچل ڈالا۔ جس پر ایک بار پھر ایران کے متعدل اور غیر شعیہ افراد میں بے چینی پھیل گئی۔ لیکن بغاوت کچلے جانے کے چند ہی ہفتوں بعد دریائے شط العرب کے تنازعے پر عراق ایران جنگ شروع ہو گئی۔ اکثر مبصرین کے خیال میں سمتبر 1980 میں شط العرب کو محض ایک بہانہ کے طور پر استعمال کیا گیا تھا ، اصل میں عراق نے امریکہ کی ایما پر ایران پر حملہ کیا۔ ایران عراق کی جنگ دس سال تک جاری رہى۔ 18 جولائی 1988ء کو ایران نے ڈرامائی طور پر جنگ بندی پر رضامندی کا اظہار کیا۔ یوں 8 اگست 1988ء کو دونوں ممالک میں جنگ بندی ہوگئی۔
ایران عراق جنگ میں مرنے والے ایرانی فوجیوں کا یادگاری میوزیم
ایران عراق جنگ کے دوران ایران میں ولایت فقیہ جبکہ عرب ریاستوں پر امریکہ کی گرفت مظبوط ہو گئی۔ جس کا تسلسل آج بھی جاری ہے۔ ایران عراق جنگ کے دوران عرب ممالک کی جانب سے عراق کی کھل کر امداد کی گئی کیوں کہ عربوں کو خطرہ تھا کہ ایرانی شیعہ انقلاب دیگر خطوں میں بھی برامد ہو جائے گا۔
یاد رہے کہ ایران عراق جنگ شروع ہونے کے بعد نائیجیریا کی ثالثی کے نتیجے میں امریکی سفارتخانے پر قبضہ ختم کر کے عملے کو رہا کر دیا گیا تھا، جو باحفاظت امریکہ روانہ ہو گئے تھے۔
(انقلاب میں کمیونسٹ تحریک کا کردار جاننے کے لئے سبط حسن کی کتاب انقاب ایران کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
انقلاب کے دنوں کی زمینی روداد جاننے کے لئے مختار مسعود کی لوح ایام بہترین ہے۔ 
دیگر احوال کی تفصیل کے لیے تاریخ اور حالات حاضرہ کے موضوع پر مختلف جانب سے لکھی گئی کتابوں سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔)

جمال خاشقجی کا قتل، سعودی شقاوت اور آزدی اظہار رائے

سعودیہ کا ایک اور جھوٹ بے نقاب ہوا’ مقتول سعودی صحافی جمال خاشقجی کے جسم کے اعضاء سعودی قونصلر جنرل محمد العتیبی کے استنبول میں واقع ...