Wednesday, December 6, 2017

بابری مسجد تنازعے کی تاریخ

انتہا پسند ہندوں کے ہاتھوں بابری مسجد کی شہادت کو 25 سال بیت گئے۔
6 دسمبر 1992ء کو بھارتی نیم فوجی دستوں،ہندو انتہا پسند شیوسینا، آر ایس ایس کے غنڈوں نے حکومتی سرپرستی میں 16ویں صدی کی تاریخی بابری مسجد کو شہید کر دیا تھا۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد بھارت میں مسلم کُش فسادات میں 3 ہزار سے زائد مسلمانوں کو بھی شہید کیا گیا تھا۔ جس کے خلاف اُس وقت کے اتر پردیش کے وزیراعلیٰ کلیان سنگھ اور شیو سینا کے سربراہ بال ٹھاکرے اور ایل کے ایڈوانی
سمیت 49 افراد کے خلاف مقدمات درج ہوئے تھے۔ 24 سال گزرنے کے باوجود کسی بھی ملزم کوسزا نہیں ہو سکی ہے۔
تین گنبدوں والی بابری مسجد شہنشاہ ”بابر“ کے دور میں اودھ کے حاکم ”میرباقی اصفہانی“ نے935 ہجری بمطابق 1528ء میں تعمیر کرائی تھی، مسجد کے مسقف حصہ میں تین صفیں تھیں اور ہر صف میں ایک سو بیس نمازی کھڑے ہوسکتے تھے، صحن میں چار صفوں کی وسعت تھی، اس طرح بیک وقت ساڑھے آٹھ سو مصلی نماز ادا کرسکتے تھے۔
اپنی ابتداء تعمیر سے لے کر 1949ء تک یہ مسجد بغیر کسی نزاع و اختلاف کے مسجد ہی کی حیثیت سے مسلمانوں کی ایک مقدس و محترم عبادت گاہ رہی اور مسلمان امن وسکون کے ساتھ اس میں اپنی مذہبی عبادت ادا کرتے تھے۔ اگرچہ اس دوران شاطر انگریزوں نے تقسیم کرو اور حکومت کرو کے اپنے فلسفے کے مطابق سب سے پہلے ‘‘ رام جنم استھان’’ اور ‘‘سیتا کی رسوئی’’ کا افسانہ ترتیب دیا۔ 1855ء میں ایک بدھسٹ نجومی سے ان دونوں مقامات کی جگہ معلوم کی خاطر زائچہ کھینچوایا گیا۔ جس نے طے شدہ سازش کے عین مطابق زائچہ کھینچ کر ”جنم استھان“ اور ”سیتا کی رسوئی“ کو بابری مسجد سے متصل احاطہ کے اندر بتایا۔ پھر انگریزوں کی ایما پر رافضی العقیدہ ”نقی علی خاں“ جو لکھنو کے مشہور نواب واجد علی کا خسر اور وزیر تھا، نے بابری مسجد کی عمارت ک باہر مگر اس کے احاطہ کے اندر کی جگہ کو ‘‘جنم استھان و سیتا رسوئی’’ کے لئے دے دیا۔
1857 ء میں جب کہ ہندوستان کے مسلمانوں اور ہندوؤں نے متحد ہوکر بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی کا
 بگل بجا، تو باہمی اتفاق و یگانگت کو مستحکم کرنے کی غرض سے اجودھیا کے مسلم رہنما امیر علی اور ہندو رہنما بابا چرن داس نے رام جنم استھان اور بابری مسجد کے تنازعہ کو ہمیشہ کے واسطے ختم کرنے کی غرض سے ایک معاہدہ کیا کہ رام جنم استھان کی مخصوص متنازعہ اراضی ہندوؤں کے حوالہ کردی جائے اور ہندو بابری مسجد کی عمارت سے دست کش ہوجائیں، انگریز جب دوبارہ فیض آباد پر قابض ہوئے تو انہوں نے ہند مسلم اتحاد کو تاراج کرنے کے لئے ، انھوں نے بابارام چرن داس اور امیر علی دونوں کو ایک ساتھ املی کے پیڑ پر لٹکاکر پھانسی دیدی ۔ مندر مسجد کے نزاع کو از سر نو زندہ کرنے کی غرض سے متنازعہ رام جنم استھان اور بابری مسجد کے معاہدے کو کلعدم قرار دے دیا ۔ 
1858ء سے لے کر 1948 ء تک حالات جوں کے توُں رہے۔ 23 اور 22 دسمبر 1949ء کی درمیانی رات کو ایودھیا کے ہنومان گڑھی مندر کے مہنت ‘‘ابھے رام داس’’ نے اپنے کچھ چیلوں کے ساتھ مسجد میں گھس کر عین محراب کے اندر ایک مورتی رکھ دی۔ جس کے بعد یہ افواہ پھیلائی گئی کہ مورتی اچانک محراب میں نمودار ہو گئی ہے۔ فیض آباد کے سٹی مجسٹریٹ نے نقص امن کا بہانہ بنا کر دفعہ 145 کے تحت مسجد اوراس سے ملحق گنج شہیداں کو قرق کرکے مقفل کردیا۔ اور پولیس کا پہرا لگا دیا گیا۔ اس سلسلے میں مولانا حسین احمد مدنی، مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نے کئی بار آنجہانی پنڈت جواہر لال نہرو سے ملاقات کی لیکن مسئلہ حل نہ ہو سکا۔ 35 سال تک مسجد مقفل ہی رہی۔
اس دوران تالا بندی اور پولیس پہرے کے باوجود مسجد کی عمارت میں کئی تبدیلیاں کی گئیں اور مسجد کی عمارت پر کندہ آیات اور احادیث کو کھرچ ڈالا گیا اور احاطے میں دو چھوٹے چھوٹے مندر بنا دیے گئے۔ 30جنوری 1986ء مسٹر کے، ایم، پانڈے ڈسٹرکٹ جج نے اور رمیش پانڈے نامی شخص کی درخواست پر ہندو ں کو بابری مسجد میں پوچا کی اجازت دے دی۔ اس مجرمانہ فیصلے کے بعد، بغیر کسی تاخیر کے 5 بجکر 19 منٹ پر بابری مسجد کا تالا کھول دیاگیا جو 1950ء میں حکم امتناعی کے نفاذ میں لگایا گیا تھا۔ جس پر ہزاروں ہندو جو وہاں جمع کئے گئے تھے پوجا پاٹ کے لئے مسجد میں داخل ہوگئے، تالا کھولنے کی اس شرمناک تقریب کو سیکولر ملک کے نشریاتی ادارے ”دور درشن“ نے بڑے اہتمام سے نشر کیا۔
30اکتوبر1990ء کو یو پی میں ملائم سنگھ وزیر اعلیٰ تھے جب ہزاروں ہندو انتہا پسندوں نے بابری مسجدکو منہدم کرنے کی کوشش کی۔ ملائم سنگھ کے حکم پر شرپسندوں کو روکنے کیلئے گولی چلائی گئی ۔ کچھ ہندو تخریب کار مارے گئے لیکن مسجد کو بچا لیا گیا ۔ دوسری جانب نرسمہا راؤ وزیراظم بنے تو ستمبر1991ء میں ایک بل پیش کیا گیا جس کے تحت مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں کی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی اور 15اگست1947ء کو ان کی جو حیثیت تھی وہ برقرار رہے گی، تاہم بابری مسجد کو نرسمہاراؤ نے اس بل کی شرائط سے مستثنیٰ رکھا۔
1992 میں یوپی مین بی جے پی کی حکومت بنی اور کلیان سنگھ وزیر اعلیٰ مقرر ہوا ۔ جسے کے بعد پورے ہندوستان میں ہندو انتہا پسندوں نے جلسے جلوس نکالے اور ایڈوانی، سنگھل، ونے کٹیار اور اوما بھارتی وغیرہ 2 لاکھ ہندو دہشت گردوں کو لے کر ایودھیا پہنچ گئے ۔ مرکز سے اچھی خاصی تعداد میں فوج بھی اجودھیا پہنچ گئی مگر اسے نامعلوم مصالح کی بنیاد پر بابری مسجد سے دو ڈھائی کلومیٹر دور رکھا گیا، صوبہ اور مرکز کے نیم فوجی دستے مسجد کی حفاظت کے لئے اس کے چاروں سمت میں متعین کئے گئی مگر انھیں وزیراعظم کی سخت ہدایت تھی ہندو تخریب کاروں پر کسی حال میں بھی گولی نہ چلائی جائے۔
یوں 6 دسمبر کی وحشتناک تاریخ آگئی، ایڈوانی، اوما بھارتی وغیرہ کی قیادت میں تخریب کاروں نے گیارہ بج کر پچپن منٹ پر بابری مسجد پر دھاوا بول دیا اور بغیر کسی مزاحمت کے پورے اطمینان سے چار بجے تک اسے توڑتے اور ملبہ کو دور پھینکتے رہے یہاں تک کہ صفحہٴ زمین سے بابری مسجد کا نام و نشان ختم کردیا گیا۔
بابری مسجد اور اس کے تنازعے کی تفصیل جاننے کے لئے ”اجودھیا کے اسلامی آثار“ نامی کتاب کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

جمال خاشقجی کا قتل، سعودی شقاوت اور آزدی اظہار رائے

سعودیہ کا ایک اور جھوٹ بے نقاب ہوا’ مقتول سعودی صحافی جمال خاشقجی کے جسم کے اعضاء سعودی قونصلر جنرل محمد العتیبی کے استنبول میں واقع ...