Wednesday, September 6, 2017

کیا 6 ستمبر 1965 کو لاہور پر ہونے والا حملہ اچانک اور غیر متوقع تھا؟؟


بی بی سی کے معروف صحافی آصف جیلانی 1965 میں دلی میں روزنامہ جنگ کے نامہ نگار تھے۔ آصف جیلانی نے بی بی سی اردو پر تحریر کی گئیں 1965 کی جنگ سے متعلق یاداشتوں میں بتایا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑی جنگ کے بادل اگست 1965 کے پہلے ہفتہ سے ہی چھانے شروع ہو گئے تھے۔ یہ وہ موقع تھا جب مقبوضہ کشمیر میں آپریشن جبرالٹر کے نام سے چھاپہ مار کارروائی اپنے عروج پر تھی۔ حکومت پاکستان کا سرکاری بیان تھا کہ یہ کشمیری ’حریت پسندوں‘ کی کارروائی ہے۔ لیکن ہندوستان کی حکومت کا واضع اصرار تھا کے یہ چھاپہ مار پاکستان کے فوجی ہیں جو جنگ بندی لائین پار کر کے ہندوستان
کی حدود میں عسکری کاروائیاں کر رہے ہیں۔
16 اگست 1965 کو ہندو قوم پرست جماعت جن سنگھ نے کی کال پر دلی میں عام ہڑتال ہوئی اور اسی روز ایک لاکھ سے زیادہ مظاہرین نے پارلیمنٹ کے سامنے تک جلوس نکالا۔ ان مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ کشمیر میں مبینہ دراندازوں کے
حملے روکنے کے لیے پاکستان پر حملہ کیا جائے۔
آصف جیلانی بتاتے ہیں 20 اگست 1965 کو بھارتی جریدے ’تھاٹ‘ کے نایب مدیر این مکرجی نے مجھے بتایا کہ انہیں بے حد باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ صبح کابینہ کے اجلاس میں ہندوستا ن کی بری فوج کے سربراہ جنرل جے این چودھری نے شرکت کی تھی اور خبر دار کیا تھا کہ رن آف کچھ کے معرکہ میں شکست کے بعد ہندوستانی فوج کے حوصلے بہت پست ہیں اور فوج کے حوصلے بڑھانے کے لیے پاکستان کے خلاف بھر پور فوجی کارروائی لازمی ہے۔ مکر جی صاحب کا کہنا تھا کہ جنرل چودھری نے صاف صاف الٹی میٹم دیا ہے کہ اگر پاکستان کے خلاف فوری کارروائی نہ کی گئی تو ملک کی سیاسی قیادت کے لیے
اس کے نتایج خطرناک ہوں گے جس کے وہ ذمہ دار نہیں ہوں گے۔
24 اگست 1965 کو اُس وقت کے بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے لوک سبھا میں اعلان کیا کہ (مقبوضہ) کشمیر میں پاکستان کے در اندازوں کو روکنے کے لیے ہندوستانی فوج جنگ بندی لائین کے پار کارروائی سے دریغ نہیں کرے
گی۔
دلی میں جنگ کے کے بادل اتنے واضع تھے کہ 17 اگست کو پاکستان کی سرکاری نیوز ایجنسی کے نامہ نگار خلیل بٹالوی جو دلی کے پٹودی ہاوس میں اپنی فیملی کے ہمرا رہائس پذیر تھے۔ جنگی حالات کے پیش نظر پٹودی ہاوس چھوڑ کر چانکیہ پوری میں پاکستان کے ہائی کمیشن کی عمارت میں پناہ لے لی تھی۔
یکم ستمبر 1965 کو ریڈیو پاکستان لاہور پر اعلان ہوا کہ ’آزاد کشمیر‘ کی فوجوں
نے پاکستانی فوج کی مدد سے چھمب پر قبضہ کر لیا ہے۔
تین ستمبر 1965 کو جب لال بہادر شاستری نے اپنی نشری تقریر میں دلی اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں بلیک آوٹ کا اعلان کیا تو کسی کو شبہ نہیں رہا تھا
کہ دونوں ملکوں میں جنگ کا بگل بج گیا ہے۔
پانچ ستمبر کو یہ خبر آئی کہ پاکستانی فوج نے جوڑیاں پر قبضہ کر لیا ہے۔ اور وہ
اکھنور سے صرف چھ میل دور رہ گئی ہے۔
آصف جیلانی مزید یہ بھی بتاتے ہیں کہ 1965 ستمبر کی جنگ کے بعد بھارت میں پاکستان کے سفیر میاں ارشد حسین نے مجھے بتایا تھا کہ ہمیں اطلاع ملی تھی ٰٓکہ لال بہادر شاستری نے 3 جولائی کو انتقامی حملہ کا فیصلہ کیا تھا لیکن بعض وجوہ کی بناء پر ملتوی کر دیا تھا۔ 6 سمتبر کو لاہور پر حملے کی باوثوق ذرائع سے اطلاع ہمیں تاخیر سے ملی تھی، اس کے باوجود 4 ستمبر کو دلی میں ترکی کے سفارت خانہ کے توسط سے پاکستان کے دفتر خارجہ کو خبردار کردیا تھا کہ ہندوستان 6 ستمبر کو بین الاقوامی سرحد پار کر کے پاکستان پر حملہ کرنے والا
ہے۔
اس سب کے باوجود لاہور پر بھارتی فوج کے حملے کو ہم سرکاری طور پر بزدل دشمن کی چوری چھپے کاروائی قرار دیتے ہیں۔

Monday, September 4, 2017

کیا برما اکسیویں صدی کا اندلس بننے جا رہا ہے؟

روہنگیا یا روہنجیا مسلمان آج دنیا کے مظلوم ترین انسان ہیں، اقوام متحدہ بھی انہیں بجا طور پر سب سے زیادہ ستائی جانے والی اقلیت قرار دیتا ہے۔

برما جسے اب میانمار کہا جاتا ہے، تاریخی طور پر برصغیر کا حصہ رہا ہے، مختلف ادوار میں اس کی جغرافیائی حدود میں تبدیلی آتی رہی ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں اس پر مختلف سلطنتیں قائم ہوتی رہی ہیں۔ برصغیر کے دیگر خطوں پر قبضے کے ساتھ ہی برما پر بھی انگریزوں نے قبضہ کر لیا، موجودہ میانمار کے علاقوں پر انگریزوں کے قبضے کی ابتدا 1826 میں ہوئی جب  'اراکان' اور' تناسرم' کا علاقہ  برٹش انڈیا کے زیر قبضہ آیا، برمن وار 1852 میں وسطی برما جبکہ تیسری اینگلو برمن وار 1885 میں بالائی خطے پر قبضے کے ساتھ ہی تمام برما پر انگریزوں کا قبضہ مکمل ہو گیا۔

روہنگیا کا آبائی وطن اراکان بنگال سے متصل ہے، یہاں خلیفہ ہارون رشید کے عہدِ میں مسلم تاجروں کے ذریعہ اسلام پہنچا۔ 1430 میں 'سلیمان شاہ' کے ہاتھوں یہاں پہلی اسلامی حکومت تشکیل پائی، اس خطے پر ساڑھے تین سا سال تک مسلمانوں کی حکومت رہی۔ 1784 میں برما کے بدھسٹ راجہ بودھوپیہ نے اراکان پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا. جس کے خلاف مسلمانوں کی مزاحمت اور بدھ سپاہیوں کے مظالم کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ حالات کی خرابی کا فائدہ انگریزوں نے اٹھایا اور ابتدا میں اراکان اور پھر پورے برما پر قبضہ کر لیا، برما پر قبضہ کرنے والی برطانوی فوج کے سپاہیوں کی اکثریت بنگالی مسلمانوں کی تھی۔ جبکہ اراکان کے مسلمانوں نے بھی انگریزوں کو نجاعت دھندہ سمجھ کر اُن کا ساتھ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزوں کے دور میں برما کے مسلمانوں کی حالت بہتر رہی، سرکاری ملازمتوں اور کاروبار میں مسلمان نمایاں تھے۔ برصغیر میں مسلمانوں کے تمام رفاعی اداروں اور انجمنوں کو سب سے زیادہ چندہ برما کے دارلحکومت رنگون سے ملا کرتا تھا۔

انگریزوں نے اپنی انتظامی تقسیم کے تحت بنگال اور برما کی حد چٹاگانگ اور اراکان کے درمیان واقعہ دریائے ناف کو بنایا، یوں تاریخ میں پہلی بار یہ خطہ ایک انتظامی یونٹ کے تحت آگیا۔ مقبوضہ کشمیر کے علاقے لداخ کے علاوہ یہ برصغیر کا واحد حصہ تھا جہاں بدھ مت کے پیروکاروں کی اکثریت تھی۔ اس الگ انتظامی یونٹ میں اراکان کے علاقے کو ایک نیم خود مختار ریاست کا درجہ حاصل تھا، جس کے تمام انتظامی معاملات مقامی حکومت کے ماتحت تھے۔

روس میں سویت انقلاب، چین میں اشتراکی شورش اور جاپان کی جرمنی اور اٹلی سے قربت وہ خاص حالات تھے، جنہوں نے انگریزوں کو انیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے بعد سے تشویش میں مبتلا کر رکھا تھا۔ ان حالات میں برصغیر (ہندوستان) میں بڑھتی ہوئی سیاسی آگاہی اور اُس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے چینی کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے 1938 میں انگریزوں نے برما کو ہندوستان سے جدا کر کے ایک الگ کالونی کا سٹیٹس دے دیا۔ کیوں کہ برما کی سرحد چین، لاؤس اور تھائی لینڈ سے ملتی ہے۔ جہاں بیک وقت اشتراکی اثرات اور جاپان کی جہاریت کے خدشات لاحق تھے۔ (یہ خدشات دوسری جنگ عظیم میں برما پر جاپانی حملے، اور چین میں اشتراکی حکومت کے قیام کی صورت میں سچ بھی ثابت ہو گئے تھے۔)

یاد رہے برما کی ہندوستان سے علیحدگی کو جواز بنا کر ہی آل انڈیا مسلم لیگ نے 1940 میں ہندوستان کے مسلم اکثریتی خطے پر مشتمل'برما طرز کی' الگ  ڈومین تشکیل دیے جانے کی قرارداد پاس کی تھی۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد جب استعماری طاقتوں کو اپنی 'کالونیوں' پر براہ راست قبضہ برقرار رکھنا مشکل ہو گیا تو برطانیہ نے جہاں برصغیر کو پاکستان اور ہندوستان میں تقسیم کر کے اگست 1947 میں آزادی دی، وہیں برما کو جنوری 1948 میں ایک ملک کی حیثیت سے آزاد کر دیا۔ اس سے قبل اراکان کے مسلمانوں کی جانب سے 
 1945میں برما مسلم کانگریس (BMC) کے نام سے ایک سیاسی تنظیم بنا کر اراکان کی برما سے اعلیحدگی یا پھر اس مسلم اکثریتی خطے کو برما کے بجائے مسلم اکثریتی مشرقی پاکستان میں ضم کرنے کی تحریک شروع کی تھی۔ لیکن نہ تو انگریزوں نے اس پر کان دھرا نہ ہی پاکستان کی نوزائیدہ مملکت نے اس حوالے سے کوئی سرگرمی دیکھائی۔ 

آزادی کے بعد 1950 سے اراکان کے مسلمان تاریخی پس منظر کے حوالے سے اپنے خطے کی برما سے اعلیحدگی کی کوشش کرتے رہے۔ جس کی وجہ سے کبھی حالات زیادہ کشیدہ ہو جاتے اور کبھی کشیدگی میں کمی بھی ہوتی۔ اس سلسلے میں بڑی تبدیلی 1962 میں آئی جب برما میں جنرل 'نی ون' نے "برمی قومیت" کا نعرہ لگا کر اقتدار پر قبضہ کر لیا اور ملک میں مارشل لاء نافذ کیا۔ اس کے فوری بعد مارشل لاء آڈر کے تحت برمی فوج اور سرکاری ملازمتوں سے مسلمانوں کو غدار قرار دے کر نکال دیا گیا۔ اراکان پر فوج کشی کی گئی اور بڑے پیمانے پر مظالم ڈھائے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ 5 لاکھ سے زیادہ اراکانی مسلمانوں نے اس دور میں ہجرت کی، جو بنگلہ دیش، ہندوستان، پاکستان، سعودیہ، تھائی لینڈ اور ملائیشیا میں آباد ہو گئے۔

 1982میں ایک مارشل لا کے ایک ضابظے کے تحت اراکان کے مسلمانوں کو غیر ملکی مہاجر قرار دے کر حق شہریت سے بھی محروم کردیا گیا۔ یوں یہ اپنے ہی آبائی وطن میں غیر ملکی قرار پائے، نئے قانون کے مطابق ان کی لڑکیوں کی شادی کے لیے 25 سال اورلڑکوں کی شادی کے لیے کم ازکم 30 سال عمر مقرر کی گئی، شادی  کے لیے بھی سرحدی سیکوریٹی فورسیز سے اجازت نامہ کا حصول ناگزیر قراردیا گیا، تاکہ ان کی آبادی کی شرح میں اضافہ نہ ہوسکے۔ اراکانی مسلمانوں پر سرکاری سکولوں میں پڑھنے، کاروبار کے لیے لائسنز حاصل کرنے یا ملازمت کرنے پر پابندی عاید کر دی گئی۔ ان پر ملک کے اندر سفر کرنے کے لیے بھی پرمٹ کے حصول کی پابندی لگائی گئی۔ تاکہ یہ اپنے حقوق سے آگاہ نہ ہوسکیں اور نہ ہی کسی قسم کی مزاحمت کے قابل رہیں۔ اراکان کا نام تبدیل کر کے 'رکھائین' رکھ دیا گیا تاکہ مسلمانوں کو ان کے شاندار ماضی سے کاٹا جا سکے۔

اس کے ساتھ ہی حکمران فوجی جنتا نے بدھسٹوں اور مسلمانوں میں نفرت پیدا کرنے کے لیے بدھ مت کے مذہبی پیشواوں یعنی مانکوں کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا۔ تاکہ عوام کی توجہ فوجی جنتا کی بدعمالیوں سے ہٹی رہے۔ نتیجے میں مسلمان ایک جانب برمی فوج اور دوسری جانب بدھ مذہب کے پروکاروں کے مظالم کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اس دوران مسلمانوں کو  کئی فسادات کا نشانہ بنایا گیا۔ جن میں 1997کے منڈلالی کے فسادات، 2001 میں ٹنگائو کے فسادات، 2012 ء میں راکھینی  فسادات، 2013ء میں پورے میانمر میں مسلم کش فسادات، 2014ء میں ایک بار پھر منڈلالی فسادات، 2016ء میں مساجدوں کا جلائو اور رہنگیا کے فسادات اور اب 2017ء میں روہنگیا میں ہونے والے مسلم کش فسادات شامل ہیں۔
 2011 میں 1962 سے جاری طویل مارشل لا کا خاتمہ ہو گیا، لیکن جمہوریت کی بحالی سے مسلمانوں کی حالت  میں کوئی فرق نہیں پڑ سکا ہے۔ امن کا نوبل انعام پانے والی برما کی وزیر اعظم 'آنک سان سوچی' بدھ مانکوں کے خوف سے مسلمانوں کی بدترین نسل کشی پر لب کھولنے کی ہمت کے قابل بھی نہیں۔  آج صورتحال یہ ہے، 
ایک لاکھ دس ہزار برمی مسلمان مہاجرین برما۔تھائی لینڈ سرحد پر 9 کیمپوں میں بد حالی کی زندگی گزار رہے ہیں، کئی لاکھ بنگلادیش اور ہندوستان کے کیمپوں میں انتہائی بے بسی کا شکار ہیں۔ جبکہ ان کے آبائی وطن اراکان میں بچے مسلمانوں کے بارے میں انسانی حقوق کی انجمنوں کا کہنا ہے کہ خواتین کا گینگ ریپ، عورتوں بچوں اور مردوں کا قتل، مساجد، سکول اور گھروں کو جلانے کی کاروائیاں  فوج خود کر رہی ہے، یا  فوج کی سر پرستی میں یہ عمل جاری ہے۔ فوج اور بدھ دہشت گردوں نے صرف 2 ستمبر 2017 کو 2600 سے زیادہ گھر جلائے ہیں۔ لندن کی کوئین میری یونیورسٹی کے محققوں نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ میانمار حکومت کے زیرِ سر پرستی، روہنگیا کی باضابطہ نسل کشی اب آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔

بدھ مانک کھلے عام اعلان کر رہےہیں کہ ہم برما سے مسلمانوں کو اُسی طرح مٹا کر دم لیں گے جس طرح انہیں سپین سے مٹایا گیا تھا۔واقعات بتا رہے ہیں کہ  اس دعوے کو حقیقت بننے میں اب زیادہ وقت باقی نہیں ہے۔ 
      

جمال خاشقجی کا قتل، سعودی شقاوت اور آزدی اظہار رائے

سعودیہ کا ایک اور جھوٹ بے نقاب ہوا’ مقتول سعودی صحافی جمال خاشقجی کے جسم کے اعضاء سعودی قونصلر جنرل محمد العتیبی کے استنبول میں واقع ...