Sunday, December 28, 2014

مرنے والوں کی یاد میں شمعیں روشن کرنے کی روایت : چند حقائق



کسی حادثے میں مرنے والوں کی یاد میں شمعیں روشن کرنے کی رسم کو میڈیا نے گلیمرس بنا دیا ہے، کہ اب ہر بلا سوچے سمجھے اسے اختیارکر رہا ہے۔
آئیے اس رسم کے بارے میں چند حقائق دیکھتے ہیں۔
شمع جلا کر یا آگ روشن کر کےعبادت کرنا تو دنیا کے کئی مذاہب کا مشترکہ عمل ہے۔ جس میں عیسائیت، یہودیت، ہندو مت، آتش پرستی وغیرہ سب شامل ہیں۔ لیکن خاص طور پر مر جانے والوں کی یاد میں شمع جلانے کی رسم مذاہب دنیا میں صرف اور صرف یہودیت کا خاصہ ہے۔

ہر مرنے والے یہودی کی یاد میں اُس کے خاندان والے مرنے کی اگلی رات سے لے کر مسلسل سات راتوں تک گھر میں ایک شمع روشن کرتے ہیں۔ اس کے بعد یہ عمل ہر ہفتے یعنی "سبت" کی رات کو دھرایا جاتا ہے۔ اسی طرح ہر سال یعنی اس کی برسی کی رات کو بھی اس کی یاد میں شمع جلائی جاتی ہے۔ یہ یہودیت کی ایک باقاعدہ مذہبی رسم ہے جس کو "یاہرذٹ" (yahrzeit) کہا جاتا ہے۔
یہودیت میں مرنے والوں کی یاد میں شمع روشن کرنے کا دوسرا موقع "یوم کپور" (Yom Kippur) ہوتا ہے۔ یوم کِپور کا تہوار ہر سال یہودی کلینڈر کے مہینے "تشری" کے دسویں دن مانایا جاتا ہےـ جو عموماً ستمبر یا اکتوبر میں آتا ہےـ یہ ایک لمبا روزہ ہوتا ہے جو سورج ڈوبنے پر شروع ہوتا ہے اور اگلے دن سورج غروب پر کھولا جاتا ہےـ اس پوری رات میں یہودی عبادت کرتے ہیں اس رات ہر یہودی اپنے دنیا سے گزر جانے والے ہر عزیز کی یاد میں شمع بھی جلاتا ہے۔
صدیوں سے مرنے والوں کی یاد میں شمع روشن کرنے کی یہ رسومات یہودی مذہب کا حصہ ہیں۔ اور صرف یہودیوں میں ہی رائج رہی ہیں۔ مغربی دنیا میں اس رسم کو معاشرے کا عمومی رواج بننے کا عمل دوسری جنگ عظیم کے بعد سے شروع ہوا۔ جب سامراجیوں نے ہٹلر کی جانب سے لاکھ یہودییوں کے قتل عام (Holocaust) کے پراپوگنڈے کو اتنا پھیلایا کہ لوگ اسے حقیقت سمجھنے لگے۔ تو ہر طرف یہودی مظلومیت کی ہوا چلنے لگی۔ جب یہود نے جنگ کے اختتام پر ہالو کاسٹ میں مرنے والوں کی یاد میں شمعیں روشن کرنا شروع کیا تو، یورپ بھر میں غیر یہود نے بھی اظہار یکجہتی کے لئے قریہ قریہ شہر شہر شمعیں جلانا شروع کیں۔ ایک طویل عرصے تک یورپ میں ہر سال صرف ہالو کاسٹ میں مرنے والے یہودیوں کی یاد میں ہی شمعیں روشن کی جاتی رہی ہیں۔ اس کے بعد یہ ہر حادثے میں مرنے والوں کی یاد میں شمعیں روشن کی جانے لگیں۔
یورپ کی دیکھا دیکھی آہستہ آہستہ گلوبلائیزیشن کے زیر اثر یہ دنیا کے دیگر خطوں میں بھی یہ رسم پھیلنا شروع ہو گئی۔

Friday, July 18, 2014

دہشت گرد کون؟؟؟

کیا دہشت گرد" وہ" ہوتا ہے جو انسانوں کا قتل عام کرے، جس کے باعث عوام الناس خوف و  دہشت کا شکار ہو جائیں؟؟

اگر ایسا ہوتا تو "اندلس میں مسلمانوں اور امریکہ میں سرخ ہندیوں کی نسل کشی کے مجرم ہسپانویوں، برصغیر اور الجزائر میں مسلمانوں کے قتل عام کے مجرم برطانویوں اور فرانیسیوں کو دہشت گرد مان لیا گیا ہوتا"۔

"جلیاں والا باغ میں ظلم اور بربریت کی انتہا کرتے ہوئےاپنے فوجیوں کو احتجاج کرنے والوں پرفائرنگ کا حکم دینے والے جنرل ڈائر کو دنیا دہشت گرد جانتی"۔

"روس میں کروڑوں انسانوں کے قتل عام کے مجرم شیطان نما جوزف سٹالن اور جاپان میں ھیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم کے ذریعے قتل عام کے مجرم ہیری ٹرومین کو دہشت گرد کے نام سے یاد کیا جاتا"۔

"صبرا و شتیلا میں نہتے اور معصوم انسانوں کے قتلِ عام کے براہ راست ذمہ دار ایرئل شیرون کو دہشت گرد تسلیم کر لیا گیا ہوتا"۔
"بوسنیا کے مسلمانوں کا قتل عام کرنے والا راڈوان کرازچ، افغانستان کے 15 لاکھ مسلمانوں اور عراق میں 4 لاکھ مسلمانوں کے قتل عام کے ماسٹر مائینڈ جارج بش پر دہشت گرد کا لیبل چسپاں ہو چکا ہوتا"۔

یہی نہیں بلکہ رونڈا و برونڈی، کانگو، زائیر، لائبیریاء، وسطی افریقہ، مالی اور نائیجیریا میں انسانیت کے قتل عام کے کسی مجرم کو کبھی دہشت گرد نہیں کہا گیا۔
برما کا  تھین سین ہو یا ہندوستان کا نریندر مودی، اسرائیل کا بنیامن نتھن یاہو ہو یا پھر شام کا بشار الاسد، نہتے انسانوں پر آتش و آہن برسانے کا جرم کریں یا  ریاستی طاقت کو قتل عام میں معاونت کا حکم دیں، ہر صورت میں دہشت گرد کے لیبل سے محفوظ رہتے ہیں۔

پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ دہشت گرد ہوتا کون ہے ؟؟

بڑا سیدھا سا جواب ہے، کہ دہشت گرد صرف وہ کہلاتا ہے جو اللہ کا نام لیتا ہے اور اسلام کے نفاذ کی بات کرتا ہے۔  یہ چاہے افغان طالبان کی صورت خود پر مسلط کردہ مسلح جنگ میں اپنا دفاع کر رہا ہو یا اخوان المسلمون کی صورت پُرامن جدوجہد، یہ ہر صورت میں دہشت گردی کا مجرم کہلائے گا۔

حد تو یہ ہے کہ "پی ایل او" اگر عرب قوم پرستی کے نام پر اسرائیل کے خلاف گوریلہ جنگ لڑے، جہاز اغواہ کرے یا ٹارگٹ کلنگ، وہ حریت پسند ہی رہتی ہے۔  لیکن اگر اسلام کا نام لینے والی حماس اسرائیلی جہاریت سے دفاع ہی کر لے تو بھی، وہ دہشت گرد کہلاتی ہے۔

مصر کا دین بیزار آمر عبدالفتح سیسی جمہوریت پر شب خون مارے، عوام کے مینڈیٹ کی توہین کرے، نہتے مظاہرین پر ٹینک چڑھا دے تو بھی دہشت گرد نہیں ہوتا، لیکن ان سارے مظالم کے باوجود بھی ہتھیار نہ اٹھانے والی اخوان المسلمون صرف اسلام کی بات کرنے کے جرم میں دہشت گرد بن جاتی ہے۔



لہذا اس "دہشت گرد" لفط کے لغوی مفہوم کو بھاڑ میں جھونک ڈالیے اور اسے ہمیشہ اُسی اصطلاحی مفہوم میں لیجیے جس میں مغرب اور اُس کے چیلے چانٹے پیش کرتے ہیں، یعنی دہشت گرد وہ انسان یا تنظیم ہے جو اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات مانتی  اور اس کے نفاذ کے لئے کوشاں ہو۔

Thursday, June 19, 2014

ضرب عضب اور پاکستان کا مسقبل

پاکستانی فوج  نےایک مرتبہ پھر شمالی وزیرستان میں "ضرب عضب"  کے نام سے ایک بڑےفوجی آپریشن کا آغاز کر دیا  ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق  2001ء میں  امریکہ کی اعلان کردہ  جنگ کے
بعد  کے 13 سالوں میں یہ 26واں  بڑا آپریشن ہے جو پاکستانی فوج اپنے ملک کے قبائیلی علاقوں میں شروع کر چکی  ہے،جبکہ سینکڑوں کی تعداد میں کی جانے  والی چھوٹی عسکری  کاروائیاں اس کے علاوہ ہیں۔   اگر صرف وزیرستان کی بات کی جائے تو یہاں اس سے پہلے "المیزان،  زلزلہ،  راہ  راست،  راہ  نجات " کے ناموں  سے بڑے آپریشن   ماضی میں کیے جا چکے  ہیں ۔

ان تمام فوجی آپریشنز  کے مقاصد میں دہشت گردی کا خاتمہ اور حکومتی رٹ کی بحالی شامل تھی۔  ہر آپریشن کے  آغاز میں  پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا   نے پوری قوم  میں  جنگی ہجان برپا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ عسکری زرائع  سے بھی  دہشت گردوں کی کمر توڑ دینے اور اُن کے نیٹ ورک کو ملیا میٹ کرنے  کے اعلانات سامنے آتے رہے ہیں۔   آہستہ آہستہ  "کامیابیوں کی نویدِ مسرت " کا بہاو کم ہوتا جاتا اور پھر اچانک کسی سہانی شام میں بغیر کسی اعلان کے یہ آپریشن  انتہائی خاموشی  سے ختم ہوجاتا۔  عوام کو  ہمیشہ  سابقہ آپریشن   کے خاتمے کا سراغ  نئے آپریشن کے آغاز کے اعلان سے ملتا رہا  ہے۔ تاہم ہر نئے  آپریشن کا آغاز ہی اس  بات کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ  اس سے پہلے  کیے جانے والے تمام آپریشنز اپنے  اہداف کے حصول  میں ناکام رہے تھے۔ 

موجودہ آپریشن "ضرب عضب" بھی ماضی  کے آپریشنز سے بڑی حد تک مماثلت  رکھتا ہے۔  وہی دعوے اور اعلانات ، ویسا ہی جنگی ہیجان  پیدا کرنے کی کوشش۔  باخبر حلقے کہتے ہیں کہ اس آپریشن کے پس منظر میں بھی ماضی کی طرح امریکہ کی جانب سے "ڈو مور " (
Do More)  کا  مطالبہ اور فوجی امداد کو اس فوجی کاروائی سے مشروط کرنے کی دھمکی شامل ہے۔  لیکن یہ آپریشن ماضی میں کیے جانے والے تمام آپریشنز سے ایک لحاظ سے مختلف  بھی  ہے  اور نتائج کے اعتبار سے بہت  زیادہ  بھیانک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

اس آپریشن کی خاص بات ایک تو اس کی ٹائمنگ  ہے ، یہ آپریشن عین اُس وقت شروع کیا گیا ہے جب امریکہ اس خطے سے ایک بدترین اور ذلت آمیز شکست کے بعد  کسی بھی قیمت پر محفوط انخلاء کی کوشش میں مصروف ہے۔ دوسری  اہم بات یہ کہ موجودہ آپریشن  "تحریک طالبان پاکستان" کے علاوہ  افغان طالبان کے بازوئے شمیشر زن  "حقانی نیٹ ورک" اور اُن کے پاکستانی اتحادی "حافظ گل بہادر گروپ "کے خلاف  بھی کیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ "حقانی نیٹ ورک" کو پاکستان کی سکیورٹی  اسٹیبلشمنٹ  اپنا  "تزویراتی     اثاثہ" (
Strategic Asset)قرار  دیتی آئی ہے ۔ ماضی میں اس حوالے  سے امریکی دباؤکو ہمیشہ  نظر انداز کرتی رہی ہے۔  اور یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک  اہم نقطہ  رہا ہے  کہ"حقانی نیٹ ورک" کو مسقبل کے لئے محفوط رکھا جائے ،تاکہ جب طالبان اقتدار میں آئیں تو   وہاں پاکستان کے مفادات کا تحفظ  ہو سکے۔

 ایک ایسے وقت میں جب امریکہ کا افغانستان سے نکل جانا نوشتہ دیوار بن چکا ہے۔  اب وہ  افغانستان پر حملے  کے وقت اعلان کردہ  کوئی بھی ہدف  کا ذکر کرنے کے بجائے محفوظ انخلاء کی بات کر رہا  ہے، افغانستان میں طالبان کی  کابل میں فاتحانہ  واپسی  کے امکانات   اور طاقت  و اقتدار میں ہر گزرنے والا دن اضافہ کررہا ہے، امریکہ کی حمایت  اور طاقت  کے سہارے  قائم ہونے والی "کابل حکومت" کے   اقتدار کی عمارت زمین بوس ہونے کو  ہے،القاعدہ پہلے کی نسبت زیادہ طاقتور ہو چکی ہے ، اب وہ افغانستان کے پہاڑوں میں روپوش نہیں ہے  بلکہ یمن ، عراق، شام ، لیبیا، مصر، مالی  اور صومالیہ جیسے ممالک میں مغربی طاقتوں اور انکے مقامی حلیفوں  سے براہ راست حالتِ جنگ میں ہے، خود مغربی ممالک میں  مسلمان  نوجوانوں کی بڑی تعداد  القاعدہ  کی دعوت سے متاثر ہو کر جہادی میدانوں میں اتر رہی ہے۔ پاکستانی حکومت  اور سکیورٹی سٹیبلشمنٹ کی جانب سے   "حقانی نیٹ ورک" اور انکے پاکستانی اتحادیوں  (جنہیں وہ اپنا انصار اور محسن قرار دیتے ہیں) کے خلاف ایک بڑے آپریشن کا آغاز کر دینا   سمجھ سے بالاتر عمل ہے۔

حالات پر نظر رکھنے والے حلقے جانتے ہیں  کہ امریکہ کی کوشش میں تھا  کہ وہ افغانستان سے نکلنے سے قبل یہاں "پراکسی وار"
(Proxy War)  کا بدوبست کر سکے۔  ایک ایسی جنگ جس کے ذریعے وہ طالبان اور دیگر اسلامی قوتوں کو مصروف رکھ سکے  لیکن اُس کا اپنا جانی نقصان نہ ہو۔ امریکہ جانتا ہے کہ افغانستان میں اُس  کی اپنی  تیار  کی ہوئی"افغان ملّی اردو"( Afghan National Army) اس قابل نہیں ہے کہ  امریکی فوج کے انخلاء کے بعد چند مہینوں تک بھی طالبان کا مقابلہ کر سکے۔ اس لئے اسے ایک زیادہ  بہتر فوجی قوت کی ضرورت تھی جو  اُس کی  جاری  کردہ  سراسر خسارے کی جنگ کو اپنے گلے کا طوق بنانے پر تیار ہو جائے۔  

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں موجود مضبوط امریکی لابی میڈیا ،اقتدار کے ایوانوں اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں موجود  اپنے اثر و رسوخ کی بنا پر  پاکستان کو اس  نہ ختم ہونے والی جنگ کا ایندھن بنانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے سنجیدہ اور محب الوطن حلقے اس پر واضع  پالیسی  اختیار کریں ، آج اگر  میڈیا اور مغرب نواز حلقوں کی جانب سے پیدا کیے گئے جنگی ہیجان  سے خوفزدہ  ہو کر  خاموش رہے۔
اور پاکستان کواس دلدل میں اترنے سے نہ روکنے میں اپنا کردار ادا  نہ کیا   تو مسقبل کے مورخ کی نظر میں  وہ  بھی پاکستان  کی تباہی میں برابر کے مجرم شمار ہوں گے۔ 

Thursday, May 22, 2014

جیو کا جرم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ 2001 کے ابتدائی دن تھے۔ جب پشاور سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار فرنٹیئر پوسٹ میں ایک توہین رسالت ﷺ پر مبنی  خط شائع ہوا۔  ایک یہودی کے لکھے ہوئے اس خط میں پیغمبرِ اسلام حضرت محمدﷺ کی شان میں انتہائی نوعیت کی گستاخی کی گئی تھی۔ آپﷺ کی ذات پر سنگین  حملے کیے گئے  اور انتہائی غلیظ زیان استعمال کی گئی تھی۔ خط کا چھپنا تھا کہ عوام میں شدید اشتعال پھیل گیا۔ اُس روز بھی پشاور کا ماحول خاصا تلخ رہا لیکن دوسرے روز جب ایک اردو اخبار نے اس طرح کے خط کی اشاعت کی خبر شائع کی تو عوام کے جذبات کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔

شہر کے ہر گلی کوچے سے جلوس نکلنا شروع ہو گئے۔ کچھ ہی دیر بعد عوام کا ایک جمِ غفیر اخبار کے دفتر کے سامنے جمع ہو گیا۔ عوام کے ضزبات قابو سے باہر ہوئے تو انہوں نے دفتر پر حملہ کردیا۔ جس سے اخبار کا دفتر اور پریس جل کر راکھ ہو گیا۔  اخبار کے دفتر کے علاوہ کئی سنیماء اور دیگر املاک بھی عوام کے غیض و غضب کا نشانہ بنے۔ تین دن تک شہر میں مکمل ہڑتال کا سماں رہا۔ کوئی دکان نہیں کھل سکی۔ یہاں تک کہ کئی علاقوں میں اشیائے خورد و نوش کی قلت ہو گئی۔  

تین دن کے بعد جب حالات کسی حد تک معمول پر آئے تو انگریزی اخبار پر توہین رسالت کا مقدمہ قائم ہوا۔ اور جس اردو اخبار نے اس خط کے شائع ہونے کی خبر چھاپی تھی اُس کے خلاف اشتعال انگیزی پھیلانے کی ایف آئی آر درج کی گئی۔ معملہ کئی مہنے تک چلتا رہا۔ اس دوران کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ چند روز کے تعطل کے بعد فرنٹیئر پوسٹ نے اپنی اشاعت دوبارہ شروع کر دی۔
چند مہینے گزرنے کے بعد انگریزی اخبار کے مدیر اور ناشر نے عدالت سے غیرمشروط معافی طلب کی۔ جس پر عدالت نے انہیں معاف کردیا۔ یہ اخبار آج بھی پشاور سے روزانہ شائع ہو رہا ہے۔ جبکہ خبر شائع کرنے والے اردو اخبار کو معمولی جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ دلچسب بات یہ ہے کہ کسی بھی جانب سے انگریزی اخبار کی بندش اور اس کے ڈکلریشن کی منسوخی کا نہ تو مطالبہ کیا گیا اور نہ ہی ایسی کوئی کاروائی عمل میں لائی گئی۔

اس واقعے کے 13 سال بعد مئی 2014 میں پاکستان کے ایک بڑے ٹی وی چینل "جیو نیوز" کے اہم انیکرپرسن اور معروف صحافی پر کراچی میں قاتلانہ حملہ ہوا۔ حملے کی خبر نشر کرتے ہوئے اپنی نشریات میں اُ س چینل نے مذکورہ صحافی کے بھائی کا بیان شامل کیا جس میں اُس کے بھائی کا کہنا تھا کہ قاتلانہ حملے میں زخمی ہونے والے صحافی نے اُسے اور بہت سے دیگر لوگوں کو بتایا تھا کہ اُسے آئی ایس آئی مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں لہذا اگر اُسے قتل کیا گیا تو اس کا ذمہ دار آئی ایس آئی کا سربراہ ہو گا۔ چینل نے اپنی نشریات میں اس بیان کے ساتھ آئی ایس آئی کے سربراہ کی تصویر بھی سکرین پر چلائی۔     

اس نشریات کے فورا بعد ملک بھر کی چھوٹی چھوٹی تنظیمیں حرکت میں آگئیں۔ اس حرکت کو ملک دشمنی اور ناقابل معافی جرم قرار دیا گیا۔ چینل کے خلاف مطاہرے اور جلوس نکلنے شروع ہو گئے۔ وہ ٹی وی چینلز جن کو اُن کے مالکان نے اصل کاروبار کے "کور" کے طور پر شروع کیا ہوا تھا، اس گھیل میں شامل ہو گئے۔ کئی ایسے اینکر پرسن جن کی وجہ شہرت پیسے لے کر پروگرام کرنا تھا، سامنے آئے اور اشتعال انگیزی کا بازار گرم کرنے لگے۔ تصویر چلانے والے چینل کے لائسنس کی منسوخی اور اس پر پابندی کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ دوسری جانب ملک کے اکثر کیبل آپریٹرز نے اسے ملک دشمن قرار دے کر اس کی نشریات کو اپنے طور پر بند کر دیا ہے۔ جبکہ اس سے پہلے یہی کیبل آپریٹرز نے بھارتی ٹی وی چینلز کی نشریات بند کرنے کے سپریم کورٹ کے حکم کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔

ابھی یہ معاملات چل رہے تھے کہ جیو نیوز کے ایک ساتھ اسی بینر تلے اپنی نشریات پیش کرنے والے چینل جیو انٹرٹینمنٹ نے ایک دل آزار قوالی جسے اس سے پہلے بھی کئی چینل اپنی نشریات میں چلا چکے تھے انتہائی گھٹیا انداز میں پیش کی۔ اس قوالی اور اور اس کی فلم بندی کو ایک دوسرے چینل "اے آر وائی" نے بار بار چلایا۔ اور عوام کو مشتعل کرنے کی کوشش کی۔

اس کے بعد ایک ایسی تنظیم جس پر امریکہ سے پیسے لے کر ملک میں مہم چلانے کے ثبوت سامنے آئے تھے نے جیو کو دیکھنا حرام قرار دیا۔ اس دوران ملک کے مختلف مقامات پر توہین مذہب کے مقدمات درج ہونے شروع ہوگئے۔ پاکستان میں چینلز کو لائیسنس جاری کرنے والے ادارے پمرا کے کچھ پرائیویٹ ممبران نے اجلاس منعقد کرکے جیو کے بینر تلے نشریات پیش کرنے والے تین چینلز کے نہ صرف نشریات بند کرنے کا اعلان کیا بلکہ انکے لائیسنس منسوخ کرنے اور دفاتر سیل کرنے  کا بھی حکم جاری کر دیا۔ تاہم بعد ازاں پمرا نے اقدام کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ تاہم حقیقت یہی ہے اب اس چینل کا اپنی نشریات جاری رکھنا مشکل نظر آ رہا ہے۔ جلد یا بدیر اس کی نشریات ہمیشہ کے لئے بند ہونے جاری ہیں۔  

لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ "جیو" کو سزا توہین مذہب کی مل رہی ہے یا توہین "آئی ایس آئی"  کی؟؟؟ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں  "آئی ایس آئی "کے سربراہ کی شان میں گستاخی  توہین رسالتﷺ سے زیادہ بڑا جرم کیوں ہے؟؟ ؟

Thursday, February 13, 2014

اُمت مسلمہ کی تاریخ کا سیاہ ترین دن

 بلا شک و شبہ اور بلا خوف تردید "3  مارچ" مسلم امہ کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ  اِس اُمتِ مظلوم پر پہلے بھی لا تعداد خونچکاں سانحے گزر چکے تھے، اس کی داستان میں اُحد، جمل وصفین کی کی شہادت گاہیں بھی ہیں اور منصورہ اور خوارزم کی رزمگاہ ہوں میں ہونے والی حزیمت بھی۔ تاتاریوں کے ہاتھوں ہونے والی تباہی کے مناظر بھی یادوں میں تازہ ہیں اور صلیبیوں کی لائی ہوئی افتاد بھی بھولی نہیں، اندلس کا سقوط بھی یاد ہے اور اقصٰی کے چھن جانے کی مصیبت بھی۔ ایک سے بڑھ کر ایک حادثہ گزر چکا تھا۔ یہ زخم گہرے ضرور تھے لیکن مہلک ہرگز نہیں۔ یہ سخت جان اُمت ہر زخم کے بعد پہلے سے زیادہ ہمت اور جرات کے ساتھ اُٹھ کھڑی ہوتی رہی ہے۔ اسی لیے ظالموں نے "3  مارچ" کو وہ کاری وار کیا کہ سمجھا جانے لگا کہ اُمت کی کمر توڑ دی گئی اور شیرازہ بکھیر ڈالا گیا ہے۔

 "3مارچ" وہ منحوس دن جب ترکی پر مسلط یہودیہ ماں کے بیٹے مصطفی کمال پاشا نے خلافت کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔ باوجود اس کے کہ ترکی کو جمہوریہ بنانے کے اعلان کے ساتھ ہی "18 اپریل 1923ء" کو اپنی تقریر میں اعلان کر چکا تھا کہ 'خلافت ایک مقدس اسلامی ادارہ ہے اس لئے "اعلٰی تُرک قومی اسمبلی" اسے برقرار رکھنے کی ضمانت دیتی ہے'۔ لیکن "3مارچ 1924ء" کو تمام وعدوں کو بلائے طاق رکھتے ہوئے ترک جمہوریہ کےقانون نمبر 431 کے تحت خلافت کے ادارے کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا گیا۔ یہ دن اچانک نہیں آیا تھا، بلکہ اس کے پس منظر میں دشمن کی صدیوں کی محنت تھی، ایک طرف اس کے خاتمے کی وجہ یہودی "فری میسن" کے ممبر مصطفی کمال پاشا اور عصمت انونو تھے تو دوسری طرف اس کی راہ ہموار کرنے میں یہودی "لانس آف عریبیہ" کے فریب خوردہ "ہاشمی النسب" شریف حسین اور اس کے فرزند فیصل شامل  تھے۔

 خلافت کےخاتمے نے گویا اُمت ِ مسلمہ سے اُس کی وہ ڈھال چھین لی جو اسےصدیوں سے دشمن کے وار سے محفوظ رکھے ہوئےتھی، وہ شجرِ سایہ دار کٹ گرا جو آلام اور مصاحب کی تیز دھوپ میں اس کی جائے پناہ ہوا کرتا تھا، وہ نخلستان تباہ ہو گیا جو زمانے کےریگستان میں اٹھنے والے ہر طوفان کی ذد میں آنے کے بعد اسکی آخری اُمید ہوا کرتا تھا۔ خلافت کے خاتمے کے ساتھ ہی اُمت کے حصے یوں بخرے ہوئے کہ یقین ہی نہیں آتا کہ کبھی یہ تمام مسلمان ملکوں اور خطوں سے ماورا ایک  ملت ہوا کرتے تھے۔ ذلت، محکومی اور بے چارگی اس پر یوں مسلط ہوئی کہ اب گمان تک کرنا دشوار ہے کہ کبھی یہ اُمت اس کائینات میں جہانگیر و جہاندار رہی ہے۔

 دشمن نے صرف خلافت کے خاتمے پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس کے دوبارہ قیام کے راستے مسدود کرنے کی بھی اپنی سی سعی کر ڈالی۔ گروہی و مسلکی تعصب کو ہوا دے کر نفاق کے بیج بوئے۔ اُمت کے خطوں کو الگ الگ ٹکڑوں میں بانٹ کر انہیں وطن قرار دیا اور حُب الوطنی کے نام پر وطن پرستی کو اُمت ِتوحید میں رواج دیا۔ اُمت کی نئی نسل کو ان کی تاریخ سے بے بہرہ رکھ کرانہیں مغربی علوم، فکر و تہذیب کی حقانیت کا قائل کرنے کی کوشش کی۔ اُمت کے ایسے منافقین کو قابل فخر بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جو اسلام کا لبادہ اُٹھ کر دشمن کے گُن گاتے ہیں۔ ممالکِ اسلامیہ پر ایسےبدبخت حکمران مسلط کئے گئے جو اسلام کے بجائے دشمن کے وفادار ہیں۔

 اسلام دشمنوں نے بظاہر اپنے ارادوں میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کرلی، ایک ملت کا تصور خواب ہو کر رہ گیا، خلافت بھولی بسری داستان بنا دی گئی۔ لیکن یہ امت دشمن کی توقع سے کہیں زیادہ سخت جان ثابت ہوئی، کئی صدیوں کی جدوجہد کے بعد ہونے والے"سقوطِ خلافت" کو ابھی ایک صدی بھی نہ گزرنے پائی تھی کہ زمیں کے شرق و وسط سے خلافت کی احیا کی صدائیں بلند ہونا شروع ہو گئیں۔ امت کے جواں رنگ و خون کے بُتوں کوتوڑ کر ملتِ واحدہ میں جذب ہو رہے ہیں۔ کہیں احیائے خلافت کی صدا رگوں میں لہو گرما رہی ہے تو کہیں شعلہ جوالہ بن کر پھوٹ چکی ہے۔ مچلتے طوفان کو روکنے کی خاطر کی جانے والی چالوں کا بھودا پن نمایا ں ہو چکا۔ فیصلے کی گھڑی قریب آن پہنچی ہے۔

 " 3مارچ " ہمیں یاد ہے، اس سال یعنی 2014 کو خلافت کے سقوط کو پورے نوے سال ہو جائیں گے۔ ہم عہد کرتے ہیں کہ ہم اس روزیعنی " یوم سقوط خلافت" کو یاد رکھیں گے ۔ غیروں کی عیاری اور ان کے ایجنٹوں کی مکاری کو کبھی نہیں بھولیں گے۔ ہر سال ہم اس روز کو "یوم احیائے خلافت "کے عنوان سے یاد کرتے رہیں گے، ہماری جدوجہد جاری رہے گی، یہاں تک کے خلافت کا ادارہ دوبارہ قائم نہیں ہوجاتا، وہ وقت اب زیادہ دور نہیں ہے، فتح کے خدوخال بہت نمایاں ہو چلے ہیں، امت کےنوجواں فتح مبین کا مژدہ اپنے خون سے در و دیوار پر لکھ رہےہیں، اب صرف چند ہی مہ و سال کا فرق ہے اور پھر وہ وقت آپہنچے گا جب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  آملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک
 بزم گل کی ہم نفس باد صبا ہو جائے گی

 پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغام سجود
 پھر جبیں خاک حرم سے آشنا ہو جائے گی

جمال خاشقجی کا قتل، سعودی شقاوت اور آزدی اظہار رائے

سعودیہ کا ایک اور جھوٹ بے نقاب ہوا’ مقتول سعودی صحافی جمال خاشقجی کے جسم کے اعضاء سعودی قونصلر جنرل محمد العتیبی کے استنبول میں واقع ...