Monday, October 29, 2018

جمال خاشقجی کا قتل، سعودی شقاوت اور آزدی اظہار رائے


سعودیہ کا ایک اور جھوٹ بے نقاب ہوا’ مقتول سعودی صحافی جمال خاشقجی کے جسم کے اعضاء سعودی قونصلر جنرل محمد العتیبی کے استنبول میں واقع گھر سے مل گئے ہیں ۔ یوں 2 اکتوبر کو جمال خاشقجی کی سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے بعد سے شروع ہونے والی داستان کا ڈراپ سین ہو گیا۔
خاشقجی کا قتل اور اس کا طریقہ کار تو اب ایک کھلی حقیقت کے طور پر سامنے آ چکا ہے، سعودی حکومت قتل کا اعتراف کر چکی ہے۔ سعودی حکومت نے اپنے 15 اہلکاروں کو گرفتار جبکہ ولی عہد محمد بن سلیمان کے دو انتہائی قریب اعلیٰاہلکاروں کا برطرف بھی کیا ہے۔ تاہم اس کے محرکات ابھی تک واضع نہیں ہو سکے۔ ترک ذرائع ابلاغ کا دعویٰ ہے کہ جمال خاشقجی کا قتل سعودی ولی عہد کے حکم پر کیا گیا، ایک میڈیا ہاوس نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ قتل سے پہلے جمال کی محمد بن سلیمان سے ٹیلیفونک گفتگو بھی کرائی گئی۔ اس کے برعکس ہر لمحے اپنے پوزیشن تبدیل کرتی سعودی حکومت کا اس وقت یہ ماننا ہے اُن کے اہلکاروں نے احکامات سے تجاوز کرتے ہوئے جمال خاشقجی کو قتل کیا ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے سعودی عرب کی اس ایشو پر جس طرح ہم نوائی کی گئی اُس کے نتیجے میں قتل کا واقعہ خبروں کے سیلاب میں کہیں دب جانا چاہیے تھا۔ لیکن ترک حکومت کی کمٹمنٹ کے سامنے سعودیہ کو گھٹنے ٹیکنے پڑھ گئے، وہ قتل کے اعتراف پر مجبور ہوا۔ گزشتہ روز رجب طیب اردوغان نے اپنی سیاسی جماعت کے ارکان پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ‘‘ترکی کے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ دو اکتوبر کو سعودی قونصل خانے میں جمال خاشقجی کے 'وحشیانہ' قتل کی منصوبہ بندی پہلے سے کی گئی تھی۔ اسی خطاب کے دوران انہوں نے انھوں نے سعودی عرب سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ جواب دے کہ جمال خاشقجی کی لاش کہا ہے اور اور اس کارروائی کا حکم کس نے دیا تھا۔’’

اردگان کے مطالبے کے پہلے حصے پر عمل درامد تو ہوچکا، جمال خاشقجی کی نعش کی باقیات کی نشاندہی تو کر دی گئی ہے۔ (اگرچہ اس حوالے سے بھی ذرائع ابلاغ کا دعویٰ ہے کہ نعش کی نشاندی منحرف سعودی سفارتکار نے کی ہے) حالات سے لگتا ہے کہ جلد ہی سعودیہ کو قتل کے منصوبہ ساز کو بھی مجبورا سامنے لانا ہی پڑے گا۔
اس پوری کہانی میں جہاں سعودی حکومت کی شقاوت اوربربریت نمایاں ہو کر سامنے آئی وہیں ہر قدم پر جھوٹ اور غلط بیانی کا مظاہرہ بھی دیکھنے میں آیا ۔
سعودی بادشاہت اپنے لیے خادم حرمین شریفین کا لقب پسند کرتی اور مملکت سعودیہ میں اسلامی نظام کے نفاذ کی دعویدار ہے’ کی ساکھ کے لیے مسلسل جھوٹ دھچکا ثابت ہوئے ہیں ۔
اس سلسلے کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ امام کعبۃ اللہ شریف عبد الرحمن السدیس نے خطبہ جمعہ میں کہا کہ جمال خاشقجی استبول میں سعودی قونصل خانے آمد کے بعد کہیں گم ہو گئے ۔ اس پر سعودیہ کے خلاف جھوٹے الزامات لگائے جا رہے ہیں ۔ حرم کعبہ جیسی مقدس اور محترم جگہ پر نماز جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ قتل کی الزام تراشی سے سعودی عرب کے حوصلہ پست نہیں ہوں گے ۔ بلکہ اس کے حوصلے ہمیشہ بلند رہیں گے ۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ امام کعبہ نے اپنے منصب اور کعبہ جیسے مقدس مقام کو سعودی بادشاہت کے دفاع کے لیے استعمال کیا ۔جبکہ کچھ ہی گھنٹوں بعد سعودی حکومت نے سرکاری طور پر تسلیم کر لیا کہ جمال خاشقجی سعودی سفارت خانے کے اندر مارے گئے تھے ۔
جمال خاشقجی کے قتل سے سعودی بادشاہت کا یہ پہلو بھی بہت نمایاں ہو کر سامنے آیا کہ مخالفین اور ناقدین سے سعودی حکومت کا رویہ انتہائی ظلم و شقاوت پر مبنی ہے ۔ اس وقت سعودیہ میں بلا شبہ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو جیلوں اور اذیت کے مراکز میں پابند سلاسل کیا ہوا ہے ۔ بعض ذرائع کے مطابق محبوس افراد کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔ انسانی حقوق کے اداروں اور مغربی ممالک کی جانب سے خواتین کو تفریح اور ڈرائیونگ کا حق نہ ملنے پر تو سعودیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ لیکن ہزاروں افراد کو برسوں سے حراست میں رکھے جانے پر خاموشی اختیار کی جاتی ہے ۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سعودی حکومت ضمیر کے قیدیوں کو دہشت گردوں یا شدت پسندوں کا ہمدرد بتاتی ہے ۔ اکیسویں صدی کا یہ المیہ ہے کہ شدت پسندی یا دہشت گردوں کا حامی ہونے کا الزام کسی فرد کو ہر قسم کے انسانی حقوق سے محروم کر دینے کا جواز تسلیم کر لیا گیا ہے ۔ (گزشتہ صدی کے دوران کیمونسٹ ممالک میں ‘بورژوا’ یعنی سرمایہ داری اور جاگیر داری کا حامی جبکہ سرمایہ دارانہ ممالک میں کیمونسٹ اور تخریب پسند کی اصطلاحات اس مقصد کے لیے استعمال کی جاتیں تھیں) آج دنیا بھر کی ظالم ریاستیں اور ادارے اپنے مخالفین پر ظلم و ستم ڈھانے کے لیے اُن پر شدت پسندی کا لیبل لگاتی ہیں۔ جس کے بعد ان کے حق میں آواز بلند کرنا خود کو انکی صف میں لاکھڑا کرنے کے مترادف ہے۔ اس کارڈ کا سعودی حکومت نے انتہائی بیدردی سے استعمال کیا ہے ۔
سعودیہ میں قید و بند کی اذیتوں میں مبتلا افراد کی بڑی تعداد کو چار مختلف درجات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
ان میں ایک تعداد تو آل سعود کے مخالف قبائل کی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے خاندانوں سے مختلف علاقوں کا کنٹرول آل سعود نے چھینا تھا۔ یا پھر جن کے بارے میں آلِ سعود کو خدشہ ہے کہ یہ کسی موقع پر ان کے اقتدار کے لیے حریف ثابت ہو سکتے ہیں ۔
دوسرے درجے میں وہ لوگ ہیں جنہیں آل سعود کی مذہبی پالیسی سے اختلاف ہے۔ ان میں طریف اور اطراف کے شیعہ اور محمد بن عبد الوہاب کے نظریے سے اتفاق نہ رکھنے والے سُنی العقیدہ مسلمان بھی شامل ہیں ۔
تیسرے درجے میں وہ لوگ شامل ہیں جو اصلاحات’ جمہوریت اور اظہار رائے کے حامی ہیں ۔ اگرچہ اس درجے کے لوگ 1950 سے ہی زیر عتاب ہیں ۔ لیکن گزشتہ عشرے میں جب عرب بہار کے تحت کئی ممالک میں انقلاب آیا تو سعودی عرب میں ایسے افراد کی بڑی تعداد کو پابند سلاسل کر دیا گیا ۔ خصوصا مصر میں جمہوریت کی بحالی اور اخوان المسلمین کی حکومت کے قیام کے بعد سعودی عرب نے امریکی آشیر باد اور کویت و متحدہ عرب امارات کے تعاون سے اُس کا تختہ اُلٹنے میں سب اہم کردار ادا کیا۔ ساتھ ہی سعودی عرب کے اندر اخوان کی فکر کے حامیوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ۔ ہزاروں افراد کو جیلوں میں ڈالا گیا ۔ جنہیں انسانیت سوز اذیتیں دی گئیں اور بہت سے افراد ان ہی اذیتوں کو سہتے سہتے جان کی بازی ہار گئے ۔
چوتھے درجے میں وہ لوگ شامل ہیں ۔ جنہیں نو منتخب ولی عہد محمد بن سلمان کی اصلاحات اور مغرب طرز زندگی کی ترویج کی مخالفت یا اس پر تنقید کی پاداش میں جیلوں میں ڈالا گیا۔ قریباً ایک صدی کی آل سعود کی روایات اور فکر و فلسفہ کو جب محمد بن سلمان نے بیک جنبش قلم مسترد دیا ۔ اور مملکت کے لیے نیا وژن 2030 متعارف کرایا ۔ جو راویت پسند حلقوں کے لیے اسے قبول کرنا مشکل کام تھا۔ قید و اذیت کے اس نئے درجے میں صرف جید علمائے دین کی تعداد قریباً 4 ہزار سے زائد ہے ۔ شہریوں کی بڑی تعداد اس کے علاوہ ہے ۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پر تنقیدی آرٹیکل لکھنے پر صحافی جمال خاشقجی کو ترکی میں واقع سعودی قونصل خانے میں انتہائی بربریت اور بہیمانیت سے قتل کیا گیا۔ صحافی جمال خاشقجی اور کا خاندان نہ صرف سعودی عرب بلکہ پوری عرب دنیا میں جدت اور ترقی پسندی کا استعارہ ہے۔ اس ضمن میں خاشقجی خاندان ولی عہد کے وژن سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے۔ دوسری جانب خاشقجی خاندان آل سعود سے قربت کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے ۔ اسی لیے سعودی اسلحہ کے سوداگر کے طور پر عدنان خاشقجی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ ایسے میں چند تنقیدی مضامین میں سعودی عرب کے نو منتخب ولی عہد کی صلاحتیوں پر اٹھے سوالات سے نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ جمال خاشقجی کو نشانِ عبرت بنانے کے لیے آل سعود نے اپنی ساکھ تک داؤ پر لگایا دیا ۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مملکت کے اندر جو افراد حکومت پر تنقید یا مخالفت کے الزامات میں قید ہوں گے اُن کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہو گا ؟
اس منظر نامے کا ایک پہلو صحافیوں کو درپیش خطرات اور معدوم ہوتی آزادی اظہار بھی ہے۔جمال خاشقجی کے قتل کے بعد شائع ہونے والے انکے آخری کالم میں لکھا ہے:
‘‘اندھیرا اور گہرا ہوگیا’ میڈیا کے خلاف کریک ڈاﺅن پر کوئی عالمی رد عمل نہ آنے پر عرب ممالک میں زبان بندی کا عمل اور تیز ہو رہا ہے’’۔
جمال خاشقجی نے مزید لکھا کہ :
‘‘ عرب ممالک میں سرکاری میڈیا کی جانب سے عوام کو غلط معلومات فراہم کی جاتی ہیں’ عربوں کو آزاد میڈیا کی ضرورت ہے’’ ۔
جمال خاشقجی کے لکھے آخری الفاظ نہ صرف عرب ممالک بلکہ پوری دنیا پر صادق آ رہے ہیں ۔ آج مشرق سے مغرب میں کہیں بھی مکمل آزاد میڈیا کا تصور خاصا محال ہے ۔ کہیں حکومتی پابندیاں اور کہیں کارپوریٹ ورلڈ کا جبر سچ کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔
ایک وقت تھا کہ صحافیوں کی زندگیوں کو ایشیا اور افریقہ کے پسماندہ ممالک میں خطرات لاحق ہوتے تھے یا پھر آزادانہ رائے رکھنے والے صحافیوں کی زندگیاں کیمونسٹ ممالک میں خطرات کا شکار ہوا کرتیں تھیں ۔ لیکن اب یورپ بھی صحافیوں کے لیے محفوظ نہیں رہا ۔ یورپی یونین میں ہونے والی کرپشن کی تحقیق کرنے والی بلغاریہ کی وکٹوریہ مارینوا کا قتل ہو یا پھر پانامہ لیکس کے ذریعے کرپشن بے نقاب کرنے والی مالٹا کی صحافی ڈیفنی گیلیزیا کا قتل صورتحال میں بدتری کی نشاندہی ہے ۔
معروف میڈیا واچ ڈاگ رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز کی پریس فریڈم انڈیکس 2018 کے مطابق دنیا کے جن پانچ ممالک میں گزشتہ برس صحافت اور میڈیا کی آزادی شدید متاثر ہوئی’ان میں چار ممالک براعظم یورپ میں واقع ہیں۔ رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز نے اپنی اسی انڈیکس میں کہا ہے :
‘‘یورپ سمیت دنیا بھر میں صحافیوں اور میڈیا مخالف جذبات میں اضافے کی وجہ سے عالمی سطح پر جمہوریت کو بھی سنگین خطرات لاحق ہوچکے ہیں’’۔
کہا جا سکتا ہے کہ نو گیارہ کے بعد دہشت گردی کی جنگ کے لیے بنائی گئیں پالیسیوں کے باعث آج انسانی حقوق، آزادی اظہار اور جمہوریت کو شدید خطرات لاحق ہیں ۔ اقوام عالم کو سوچنا ہوگا کہ انسانی حقوق، آزادی اظہار اور جمہوری اقدار کا تحفظ کیسے یقینی بنایا جا سکتا ہے ۔ ورنہ ہم پھر یورپ کے تاریک عہدِ وسطیٰ میں پہنچ جائیں گے ۔ جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل پر پیدا ہونے والی حساسیت کے نتیجے میں ترقی معکوس کا عمل روکنے کے ٹھوس اقدامات امید افزا ہوں گے۔ اور اگر ایسا نہ ہو سکا تو مستقبل میں آئے روز ہمیں کسی نہ کسی ‘‘جمال خاشقجی’’ کا قتل افسردہ کرتا رہے گا ۔



No comments:

Post a Comment

جمال خاشقجی کا قتل، سعودی شقاوت اور آزدی اظہار رائے

سعودیہ کا ایک اور جھوٹ بے نقاب ہوا’ مقتول سعودی صحافی جمال خاشقجی کے جسم کے اعضاء سعودی قونصلر جنرل محمد العتیبی کے استنبول میں واقع ...