Sunday, September 16, 2018

خواتین کے حوالے سے دیندار طبقات کا بے جا متشدد رویہ

کچھ عرصہ قبل کی بات ہے۔ ایک مذہبی جماعت کے مقامی ذمہ دار دفتر تشریف لائے۔ وہ توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے خلاف کمپین کی میڈیا کوریج کے حوالے سے تبادلہ خیال کرنا چاہتے تھے۔ گفتگو لمبی ہوئی تو ہم دفتر کے کیفے میں آ گئے۔ بیٹھے ہی تھے کہ نزدیکی میز سے اٹھتے ہوئے ایک خاتون رپورٹر نے مجھ سے پوچھا "میں نے ایک نیوز پیکج کا سکرپٹ ای میل کیا تھا، وہ دیکھا ہے"
میں نے جواب دیا کہ "ہاں مل گیا تھا، سکرپٹ ایڈیٹ کر کے تین بجے کے بلیٹن میں شامل کر دیا ہے، آپ فوری طور پر 'وائس اور' کر کے پیکج مکمل کرائیں۔
" میں بس نماز پڑھ لوں تو وائس اور کرتی ہوں" یہ کہہ کر خاتون رپورٹر وہاں سے چل دیں۔
خاتون کے جاتے ہی میرے سامنے موجود مولانا صاحب کی زبان سے بے ساختہ نکلا کہ " نماز کی اتنی فکر ہے تو حلیہ کم از کم درست کر لیتی" 
جملہ سُن کر مجھے جھٹکا لگا۔ کیوں کہ خاتون کا حلیہ خاصہ مناسب تھا۔ وہ برقعے اور نقاب میں نہ تھی، لیکن کھلے ڈھلے شوار قمیض پر سلیقے سے دوپٹہ اوڑ رکھا تھا۔ 
اس کے بعد مولانا صاحب سے اسی موضوع پر خاصی طویل بحث ہوئی۔ میرا موقف یہ تھا کہ مغرب اور الحاد عورت کو مذہب اور اقدار کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ ایسی خواتین جو پروفیشنل ہونے کے باوجود دین سے رغبت رکھتی ہیں وہ غنیمت ہیں۔ اُں کی حوصلہ افزائی کی جانی چائیے تاکہ دین سے اُن کا تعلق مزید مستحکم ہو۔ نہ کہ تنقید کر کے اُنہیں بدظن کیا جائے۔ مولانا صاحب میرے کسی بھی نکتے سے ایک فیصد بھی متفق نہ ہوئے۔
 البتہ مجھے یہ سمجھ آئی کہ خواتین کے حوالے سے ہمارے دینی طبقے کا رویہ ضرورت سے کہیں زیادہ جارحانہ اور انتہا پسندانہ ہے۔  یہ نقطہ نظر اسلام کی نسبت قبائلی طرز فکر سے زیادہ قریب ہے۔ ہم خواتین کو وہ حقوق دینے کو بھی تیار نہیں ہیں جو قرون اولیٰ کی خواتین کو حاصل تھے۔ مثال کے طور پر پسند کی شادی کی اجازت، کاروبار کرنے کی آزادی وغیرہ۔ نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ دین بیزار لوگ بڑی آسانی کے ساتھ خواتین کو دین سے برگشتہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ جس کے اثرات آئیندہ نسلوں پر مرتب ہوتے ہیں۔ 

میرا ذاتی خیال یہی ہے کہ خواتین کے حوالے سے ہمیں اپنے رویے اور نکتہ نظر پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مغرب سے متاثر لوگ جہاں صرف نظر کے پردے کو کافی سمجھتے ہیں۔ وہیں سر سے پاوں سے لپٹی ہوئی خاتون کے با امر مجبوری گھر سے نکلنے کو بھی فحاشی قرار دینے والوں کی بھی کمی نہیں۔ ایسے میں راہ اعتدال کا حدود اربعہ تلاش کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو چکا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا علما نے عصر حاضر میں اس سلسلے میں کوئی باقاعدہ غور و فکر کیا ہے؟
 کہ ایک خاتون کا آئیڈیل لباس کیا ہونا چائیے یہ تو سب کو معلوم ہے، البتہ کیا اس کا تعین بھی کیا گیا ہے کہ لباس کے معاملے میں زیادہ سے زیادہ گنجائش کیا ہے؟
چہرے کے پردے کے سلسلے میں علما کا اختلاف کیا ہے؟

اگر اعتدال پسند علما رہنمائی فرمائیں تو ہمارے معاشرے پر بہت بڑا احسان ہو گا۔

2 comments:

  1. بالکل درست سمت میں مسئلہ اجاگر کیا ہے۔ ہمارے ہاں کا علماء کا طبقہ دین کی سہولیات کے بجائے سختیوں پر توجہ دیتا ہے۔

    ReplyDelete

جمال خاشقجی کا قتل، سعودی شقاوت اور آزدی اظہار رائے

سعودیہ کا ایک اور جھوٹ بے نقاب ہوا’ مقتول سعودی صحافی جمال خاشقجی کے جسم کے اعضاء سعودی قونصلر جنرل محمد العتیبی کے استنبول میں واقع ...