Thursday, May 22, 2014

جیو کا جرم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ 2001 کے ابتدائی دن تھے۔ جب پشاور سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار فرنٹیئر پوسٹ میں ایک توہین رسالت ﷺ پر مبنی  خط شائع ہوا۔  ایک یہودی کے لکھے ہوئے اس خط میں پیغمبرِ اسلام حضرت محمدﷺ کی شان میں انتہائی نوعیت کی گستاخی کی گئی تھی۔ آپﷺ کی ذات پر سنگین  حملے کیے گئے  اور انتہائی غلیظ زیان استعمال کی گئی تھی۔ خط کا چھپنا تھا کہ عوام میں شدید اشتعال پھیل گیا۔ اُس روز بھی پشاور کا ماحول خاصا تلخ رہا لیکن دوسرے روز جب ایک اردو اخبار نے اس طرح کے خط کی اشاعت کی خبر شائع کی تو عوام کے جذبات کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔

شہر کے ہر گلی کوچے سے جلوس نکلنا شروع ہو گئے۔ کچھ ہی دیر بعد عوام کا ایک جمِ غفیر اخبار کے دفتر کے سامنے جمع ہو گیا۔ عوام کے ضزبات قابو سے باہر ہوئے تو انہوں نے دفتر پر حملہ کردیا۔ جس سے اخبار کا دفتر اور پریس جل کر راکھ ہو گیا۔  اخبار کے دفتر کے علاوہ کئی سنیماء اور دیگر املاک بھی عوام کے غیض و غضب کا نشانہ بنے۔ تین دن تک شہر میں مکمل ہڑتال کا سماں رہا۔ کوئی دکان نہیں کھل سکی۔ یہاں تک کہ کئی علاقوں میں اشیائے خورد و نوش کی قلت ہو گئی۔  

تین دن کے بعد جب حالات کسی حد تک معمول پر آئے تو انگریزی اخبار پر توہین رسالت کا مقدمہ قائم ہوا۔ اور جس اردو اخبار نے اس خط کے شائع ہونے کی خبر چھاپی تھی اُس کے خلاف اشتعال انگیزی پھیلانے کی ایف آئی آر درج کی گئی۔ معملہ کئی مہنے تک چلتا رہا۔ اس دوران کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ چند روز کے تعطل کے بعد فرنٹیئر پوسٹ نے اپنی اشاعت دوبارہ شروع کر دی۔
چند مہینے گزرنے کے بعد انگریزی اخبار کے مدیر اور ناشر نے عدالت سے غیرمشروط معافی طلب کی۔ جس پر عدالت نے انہیں معاف کردیا۔ یہ اخبار آج بھی پشاور سے روزانہ شائع ہو رہا ہے۔ جبکہ خبر شائع کرنے والے اردو اخبار کو معمولی جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ دلچسب بات یہ ہے کہ کسی بھی جانب سے انگریزی اخبار کی بندش اور اس کے ڈکلریشن کی منسوخی کا نہ تو مطالبہ کیا گیا اور نہ ہی ایسی کوئی کاروائی عمل میں لائی گئی۔

اس واقعے کے 13 سال بعد مئی 2014 میں پاکستان کے ایک بڑے ٹی وی چینل "جیو نیوز" کے اہم انیکرپرسن اور معروف صحافی پر کراچی میں قاتلانہ حملہ ہوا۔ حملے کی خبر نشر کرتے ہوئے اپنی نشریات میں اُ س چینل نے مذکورہ صحافی کے بھائی کا بیان شامل کیا جس میں اُس کے بھائی کا کہنا تھا کہ قاتلانہ حملے میں زخمی ہونے والے صحافی نے اُسے اور بہت سے دیگر لوگوں کو بتایا تھا کہ اُسے آئی ایس آئی مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں لہذا اگر اُسے قتل کیا گیا تو اس کا ذمہ دار آئی ایس آئی کا سربراہ ہو گا۔ چینل نے اپنی نشریات میں اس بیان کے ساتھ آئی ایس آئی کے سربراہ کی تصویر بھی سکرین پر چلائی۔     

اس نشریات کے فورا بعد ملک بھر کی چھوٹی چھوٹی تنظیمیں حرکت میں آگئیں۔ اس حرکت کو ملک دشمنی اور ناقابل معافی جرم قرار دیا گیا۔ چینل کے خلاف مطاہرے اور جلوس نکلنے شروع ہو گئے۔ وہ ٹی وی چینلز جن کو اُن کے مالکان نے اصل کاروبار کے "کور" کے طور پر شروع کیا ہوا تھا، اس گھیل میں شامل ہو گئے۔ کئی ایسے اینکر پرسن جن کی وجہ شہرت پیسے لے کر پروگرام کرنا تھا، سامنے آئے اور اشتعال انگیزی کا بازار گرم کرنے لگے۔ تصویر چلانے والے چینل کے لائسنس کی منسوخی اور اس پر پابندی کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ دوسری جانب ملک کے اکثر کیبل آپریٹرز نے اسے ملک دشمن قرار دے کر اس کی نشریات کو اپنے طور پر بند کر دیا ہے۔ جبکہ اس سے پہلے یہی کیبل آپریٹرز نے بھارتی ٹی وی چینلز کی نشریات بند کرنے کے سپریم کورٹ کے حکم کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔

ابھی یہ معاملات چل رہے تھے کہ جیو نیوز کے ایک ساتھ اسی بینر تلے اپنی نشریات پیش کرنے والے چینل جیو انٹرٹینمنٹ نے ایک دل آزار قوالی جسے اس سے پہلے بھی کئی چینل اپنی نشریات میں چلا چکے تھے انتہائی گھٹیا انداز میں پیش کی۔ اس قوالی اور اور اس کی فلم بندی کو ایک دوسرے چینل "اے آر وائی" نے بار بار چلایا۔ اور عوام کو مشتعل کرنے کی کوشش کی۔

اس کے بعد ایک ایسی تنظیم جس پر امریکہ سے پیسے لے کر ملک میں مہم چلانے کے ثبوت سامنے آئے تھے نے جیو کو دیکھنا حرام قرار دیا۔ اس دوران ملک کے مختلف مقامات پر توہین مذہب کے مقدمات درج ہونے شروع ہوگئے۔ پاکستان میں چینلز کو لائیسنس جاری کرنے والے ادارے پمرا کے کچھ پرائیویٹ ممبران نے اجلاس منعقد کرکے جیو کے بینر تلے نشریات پیش کرنے والے تین چینلز کے نہ صرف نشریات بند کرنے کا اعلان کیا بلکہ انکے لائیسنس منسوخ کرنے اور دفاتر سیل کرنے  کا بھی حکم جاری کر دیا۔ تاہم بعد ازاں پمرا نے اقدام کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ تاہم حقیقت یہی ہے اب اس چینل کا اپنی نشریات جاری رکھنا مشکل نظر آ رہا ہے۔ جلد یا بدیر اس کی نشریات ہمیشہ کے لئے بند ہونے جاری ہیں۔  

لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ "جیو" کو سزا توہین مذہب کی مل رہی ہے یا توہین "آئی ایس آئی"  کی؟؟؟ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں  "آئی ایس آئی "کے سربراہ کی شان میں گستاخی  توہین رسالتﷺ سے زیادہ بڑا جرم کیوں ہے؟؟ ؟

2 comments:


  1. اگر ایک ظالم پر دوسرا ظالم حملہ آور ہو جاۓ تو کیا آپ ان میں سے کسی ایک کو مظلوم بنا کر پیش کر سکتے ہیں ؟
    اگر آپ کے علاقے میں کچھ بدمعاشوں نے گند مچایا ہو، اور ایک دن آپ کو پتا چلے کہ معاشرے کے ناسور کچھ بدمعاش آپس میں لڑ مر کر ختم ہو رہے ہیں تو کیا آپ کو ان پر ترس آئے گا کہ خوشی ہو گی کہ چلو بھئی خس کم جہاں پاک ؟
    ظلم کو ظلم کی بجاۓ انصاف سے ختم کرنا چاہیے ، لیکن جب انصاف کرنے والے خود ظالم ہوں اور نہ لوگوں میں انصاف حاصل کرنے کا شعور ہو اور نہ ہی آپ کی ظلم کے خلاف لڑنے کی استطاعت ، تو اس حال میں کیا کیا جاۓ ؟
    ایجنسیوں ، جیو ، ARY اور سماء ٹی وی کی لڑائی پر کچھ یہی حال اپنے دل کا ھے کہ غنیمت ہے ظالموں کی لڑائی میں کسی ایک سے تو آغاز ہو ، کوئی ایک تو انجام کو پہنچے، اور یہ حسنِ اتفاق ہے کہ ابھی جس ظالم کو انجام پر پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ گند پھیلانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا

    ReplyDelete
  2. سب کو معلوم ہے کہ اس ملک میں توہینِ مذہب سے بڑا جرم کیا ہے!!!!!

    ReplyDelete

جمال خاشقجی کا قتل، سعودی شقاوت اور آزدی اظہار رائے

سعودیہ کا ایک اور جھوٹ بے نقاب ہوا’ مقتول سعودی صحافی جمال خاشقجی کے جسم کے اعضاء سعودی قونصلر جنرل محمد العتیبی کے استنبول میں واقع ...