Thursday, April 25, 2013

ہمیں یاد ہے وہ زرا زرا ، تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

آج جب سابق فوجی ڈیکٹیٹر پرویز مشرف کا وکیل اور اس کی پارٹی آل پاکستان مسلم لیگ کا سینیر رہنما احمد رضا قصوری سپریم کورٹ آف پاکستان کے باہر سابق صدر مشرف کا دفاع کرتے ہوئے رو پڑا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اس نے ماضی میں کئی بار پرویز مشرف سے دبئی میں ملاقات کی اور دیکھا کہ پرویز مشرف اپنی والدہ کو روٹی کے چھوٹے چھوٹے نوالے بنا کر دیتا تھا۔

مگر مچھ کے انسو بہاتے اس شخص کو دیکھ کر مجھے اسی سپریم کورٹ کے باہر کھڑی وہ روحیفہ بی بی بہت یاد آرئی ہے جس کے تین بیٹوں کو لاہور ہائی کورٹ باعزت رہا کرنے کا حکم دے چکی تھی لیکن خفیہ اداروں نے ان سمیت گیارہ قیدیوں کو اڈیالہ جیل راولپنڈی سے اغوا کرلیا تھا۔

ایک بیٹے کو سرکاری ہراست میں قتل کیے جانے کے بعد  بوڑھی ماں نے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ خفیہ ادارے اس کے بیٹوں کو باری باری مارنے کی بجائے ایک ہی دفعہ مار دیں تاکہ وہ اپنے تینوں بیٹوں کو ایک ساتھ ہی دفن کرکے ان کی فکر سے آزاد ہو جائے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر جب 3 فروری کو انہیں سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا تو روحیفہ بی بی نے اپنے بیٹوں عبدالماجد اور عبدالباسط کے ساتھ ملاقات کی تو ان کے لاغر چہرے اور زخم زخم جسم دیکھ کر رو پڑی تھی۔ بے پناہ تشدد کے باعث یہ اپنے پاوں پر کھڑے بھی نہیں ہو سکتے تھے۔ اپنے دونوں بچوں کی حالت دیکھ کر روحیفہ بی بی کی زبان سے ان سب کے لئے بددعائیں نکلیں جنہوں نے قومی سلامتی کے نام پر ان دونوں کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔

مکاری سے بھرپور ان انسوں کو دیکھ کر آمنہ مسعود جنجوعہ کی معصوم بیٹی میری نظروں کے سامنے آجاتی ہے جو جبری گمشدہ افراد کے لئے لگائے جانے والے ہر کیمپ میں اپنی آنکھوں میں دنیا جہاں کی اداسی سمیٹے پوچھتی رہتی ہے کہ میرے ابو کب آئیں گے؟؟ ان کا وہ کون سا قصور ہے جس کی وجہ سے انہیں ہم سے دور کردیا گیا ہے؟؟
اور یہ معصوم کلی کوئی تنہا تو نہیں، اس جیسے دیگر ہزاروں بچے ملک کے کونے کونے میں یہی سوال کر رہے ہیں۔ اور صرف بچے ہی نہیں کتنے ہی بوڑھے والدین ہیں جن سے ان کے بڑھاپے کے سہارے کو چھین لیا گیا ہے، کتنی وفا شعار بیویوں کی نگائیں اپنے سہاگ کی راہ دیکھتے ہوئے پتھرا چکی ہیں۔ کتنے بہنوں سے انکے بھائی جدا کیے گئے۔
یہ سب اس شخص کی ہدایت پر اپنائی گئی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
 
 کبھی ڈاکٹر عافیہ کی بیٹی اور بیٹا سراپہ سوال بن کر میرے سامنے آکر پوچھتے ہیں کہ ہماری ماں کو اغواہ کرکے امریکہ کے حوالے کر دیا گیا تھا، جہاں انہیں ناکردہ جرم میں 86 سال کے لئے پسِ دیوار زندان دھکیل دیا گیا ہے، اب جو ہم ساری زندگی اپنی ماں کی ممتا سے محروم رہیں گے، آخر ہم نے یا ہماری نے وہ کون سا قصور کیا ہے جس کے باعث ہمیں یہ سزا ملی ہے؟ کبھی ڈروان حملوں میں مرنے والے معصوم بچوں کے والدین سامنے آ رہے ہیں جن کے جگر گوشے اس ایک شخص کی جانب سے امریکوں کو دی گئی اجازت کی وجہ سے مسلسل قتل کیے جا رہے ہیں۔    

میں سوچ رہا ہوں کہ کیا اس شخص کے باعث ازیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہزاروں لوگوں میں سے کوئی ایک بھی کسی عدالت کی جانب سے اشتہاری قرار دیا جا چکا ہے؟؟ کسی ایک پر دہشت گردی کی کی دفعات کے تحت مقدمہ چل رہا ہے؟؟ کیا ان میں سے کوئی ایک بھی اعلیٰ عدلیہ کے کسی جج تو کیا کسی مجرم کو بھی حبس بے جا میں رکھنے کا ملزم ہے؟؟ کیا ان میں سے کوئی ایک بھی قتل کے الزام میں ماخوذ ہے؟؟ کیا ان میں سے کسی ایک پر بھی ملک کی اعلیٰ عدالت غداری کا مقدمہ چلانے کا حکم دے چکی ہے؟؟؟

یقیناً ایسا کچھ بھی نہیں،  بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پہلے مشرف کو ایک بہادر کمنڈو ثابت کرنے کے لئے یہی مکار شخص میڈیا کو بتا رہا ہے کہ عدالت کی جانب سے گرفتاری کا حکم پاوں تلے روند کر اپنے محل نما گھر میں کافی اور سنگار سے لطف اندوذ ہو رہا ہے۔ لیکن جب اس نے دیکھا کہ جعلی بہادری کی نمائش فائدہ مند نہیں ہے تو اب ایک نیا ڈرامہ شروع کر کے آنسو بہا رہا ہے کہ بہادر کمانڈو کو 4 دن اپنےہی محل میں قید رہنے کے بعد اماں کی یاد آنا شروع ہو گئی ہے۔

لیکن یہ مگر مچھ کے آنسو  اب کوئی نیا ہیرو نہیں تشکیل دے سکتے، اب اس ملک میں عوام با شعور ہو چکے ہیں !! خبردار اے اہل پاکستان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لال مسجد میں قتل عام پر خاموشی کا گناہ آگے ہی تمھارے گلے پڑا ہوا ہے کہیں اس کے قاتل کو ہیرو سمجھ کر اس کے وبال میں اور نہ آجانا، بے گناہ لوگوں کے قاتل کسی ہمدردی کے مستحق نہیں ہوتے

4 comments:

  1. آپ ویسے ہی ججباتی ہو رہے ہیں مہتاب صاحب ! صاحب عالم کو باہر بھجوانے کی افواہیں محض افواہیں ہی نہیں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ نہیں ہو گا ۔ آپ کن خوش فہمیوں میں ہیں !

    ReplyDelete
  2. حسین حقانی کو بھول گئے ہیں کیا؟؟؟؟

    ReplyDelete
  3. عبد اللہ آدم بھائی میں کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہوں ، صرف اس ملک کی عوام کو یاد دھانی کرنا چاہتا ہوں
    مبشر سلیم بھائی ہم تو بہت سوں کو بھول چکے ہیں لیکن اب مزید بھولنے کی کنجائش نہیں رہ گئی

    ReplyDelete
  4. جب ظُلم حد سے بڑھ جائے اور انصاف کہیں کھو جائے ۔ یہ آثار قوم کی تباہی کے ہوتے ہیں ۔ ایسے کہ اُن کا نام تو رہ جاتا ہے لیکن نشان نہیں رہتا

    ReplyDelete

جمال خاشقجی کا قتل، سعودی شقاوت اور آزدی اظہار رائے

سعودیہ کا ایک اور جھوٹ بے نقاب ہوا’ مقتول سعودی صحافی جمال خاشقجی کے جسم کے اعضاء سعودی قونصلر جنرل محمد العتیبی کے استنبول میں واقع ...