Sunday, October 1, 2017

شعیہ سُنی منافقرت کی وجوعات اور حل

شعیہ سُنی اختلاف تو 14 سو سال پرانا ہے۔ 14 صدیوں کے دوران کبھی یہ اختلاف دبا رہا اور کبھی ابھر کر سامنے آجاتا رہا ہے۔
عرب اور ایران کی نسبت ہندوستان میں شعیہ سُنی منافقرت بہت کم رہی ہے۔ تاریخ کو کھنگالنے پر بھی چند ایک واقعات کے علاوہ کسی بڑے فساد کے شواہد نہیں ملتے ہیں۔
اگرچہ ہندوستان میں محمد بن قاسم کی قائم کردہ سلطنت منصورہ کے بعد دوسری اسلامی مملکت جو ملتان میں قائم ہوئی وہ اسماعیلی شعیوں کی تھی۔ تیمور لنگ کے حملے کے بعد مختصر عرصے کہ لیے دہلی میں ایک شعیہ خاندان کی نیم خود مختار حکومت قائم ہوئی۔ اسی طرح شیر شاہ سوری سے شکست کے بعد ہمایوں ایران فرار ہوا، اور انتہائی متعصب شعیہ حکمرانوں یعنی صفویوں کی مدد سے دوبارہ ہندوستان پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا۔ کہا یہ بھی جاتا ہے کہ ہمایوں نے ایران نے باقاعدہ شعیہ مذہب اختیار کر لیا تھا۔ تاہم اس کا اثر مغلوں میں چند شعیہ رسومات کی صورت میں اورنگزیب سے پہلے تک باقی رہا۔ ہندوستان کے مسلمانوں میں کی اکثریت سنی العقیدہ تھی اور ہمیشہ رہی ہے۔
انگریزوں کا برصغیر پر قبضے کے دوران پہلے پہل جن نمایاں شخصیات  واسطہ پڑا وہ بھی شعیہ ہی تھے۔ پلاسی کی جنگ میں انگریزوں کا مقابلہ کرنے والا سراج الدولہ، اور معروف غدار میر جعفر دونوں شعیہ تھے۔ اسی طرح ٹیپو سلطان سے غداری کرنے والا میر صادق بھی شعیہ تھا۔ انگریزوں نے تقسیم کرو کی پالیسی کے مطابق سُنی اکثریت کے مقابلے میں ہمیشہ شعیہ اقلیت کو پروان چڑھایا۔ ایران سے جب آغا خان اول کو انگریزوں کا ایجنٹ ہونے کے الزام میں جلاوطن کیا گیا۔ تو انہیں ہندوستان لا کر مسلمانوں کی قیادت کے منصب پر سرفراز کرایا گیا۔ جس وقت مسلمانان برصغیر خلافت عثمانیہ کے لیے تاریخ ساز تحریک چلا رہے تھے، عین اُسی وقت معروف شعیہ رہنماوں آغا خان اور سید امیر علی نے خلافت عثمانیہ کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ لیکن اس کے باوجود عوام میں شعیہ سنی منافقرت جڑ نہیں پکڑ سکی۔ 
طوالت سے بچنے اور موضوع کو سمجھنے کے لیے  صرف یہی مثال کافی ہوگی  کہ برصغیر میں علمائے دیوبند کی دوسری بڑی جماعت "مجلس احرار" کے جنرل سیکریٹری ایک شعیہ 'مظہر علی اظہر' رہے ہیں ۔ اسی طرح  لکھنو کے ایک شعیہ عالم “تحریک مدح صحابہ" کے روح رواں ہوا کرتے تھے۔ 
پاکستان بننے کے بعد بھی شعیہ سُنی منافقرت کی عمومی فضا بہتر رہی، خصوصا "ختم نبوت " کی پوری تحریک کے دوران شعیہ اور تمام سُنی مکاتیب فکر کے علما ایک ہی سٹیج پر موجود ہوا کرتے تھے۔
معاملات وہاں سے خراب ہونے شروع ہوئے، جب 1979 میں ایران میں آنے والے شعیہ انقلاب کو پاکستان جیسے غالب سُنی اکثریت کے ملک میں درامد کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایرانی انقلاب کے سال ہی پاکستان میں شعیہ عالم مفتی جعفر حسین کی صدارت میں ‘تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان’ کا قیام عمل میں آیا۔ بیسویں صدی کی آٹھویں دھائی کا نصف اول کچھ غالی شعیوں کی جانب سے مسلسل جہاریت اور ہٹ دھرمی کا گواہ ہے۔ اس دوران پاکستان کی پارلیمان کا گھیراو کیا گیا، عمارت کو آگ بھی لگائی گئی۔ زبردستی اپنے مطالبات منوائے گئے۔ اسی طرح کوئٹہ میں پہلا شعیہ سُنی فساد ہوا جس میں کئی سُنی اور سکیورٹی فورسز کے اہلکار مارے گئے۔ اسی دوران ‘بالائی کرم ایجنسی’ خصوصا پارہ چنار سے سُنیوں کا مکمل صفایا کر کے وہاں مضبوط شعیہ ہولڈ قائم کر لیا گیا۔ اسی دوران ایران اور پاکستان کے کئی غالی شعیوں نے صحابہ اور ازدواج مطہرات  کے متعلق دلآزار کتابیں تصنیف کیں، یا پھر ماضی میں لکھی گئی دلآزار کتابوں کے تراجم ہوئے اور اشاعت نو کی گئی۔
ان واقعات کے بعد اہل سنت کی جانب سے رد عمل آنا ناگزیر تھا۔ چناچہ  انقلاب ایران اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے قیام کے 6 سال بعد سپاہ صحابہ وجود میں آئی۔ جس نے پاکستان میں شعیوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ غالی شعیوں کے جواب میں سُنی انتہا پسند موقف کی ترجمانی کی۔ لیکن یہ دوسری انتہا پر یوں چلے گئے کہ انہوں نے "کافر کافر شعیہ کافر" کا نعرہ لگا کر تمام شعیوں کو ترازوں کے ایک ہی پلڑے میں ڈال دیا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ برصغیر میں پائے جانے والے شعیوں میں غالی شعیہ بہت کم تھے۔ یہاں ہمیشہ سے زیادہ تعداد تفصیلی شعیوں کی رہی ہے۔ جبکہ زیدی شعیہ بھی خاصی تعداد میں موجود رہے ہیں۔ 
سپاہ صحابہ اور غالی شعیوں کی زبانی وتحریری تکرار جلد ہی مسلح تصادم میں بدل گئی۔ پھر اس میں ایرانی اور سعودی پراکسی وار بھی شامل ہوگئی۔ ایک دوسرے پر حملے، مساجد ، امام باڑوں میں بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ معمول بن چکی ہے۔
اس سے فائدہ جہاریت پسند غالی شعیہ طاقتوں نے اٹھایا، جنہوں نے خوف اور مظلومیت کا ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے کہ کسی شعیہ کے لیے معتدل موقف پر برقرار رہنا ناممکن بنا دیا گیا۔ اس لیے آج پاکستان میں اہل تشیع مذہب کے تمام انڈے غالی شعیوں کی ٹوکری میں ہیں۔
اس سے ملتی جلتی صورتحال نسبتا کم شدت سے سُنیوں کو بھی درپیش ہے، یہاں بھی کسی شعیہ کے حق میں بات کرنا یا شعیوں کے کسی جزوی موقف کو تاریخ طور پر درست قرار دینا، رافضیت کا الزام خود پر لینے کے مترادف بنا دیا گیا ہے۔ 
اس ساری صورتحال میں بدترین کردار ہماری اسٹیبلشمنٹ کا رہا ہے، جسں نے ایرانی انقلاب کی پاکستان میں درامد اور فروغ کو روکنے کے لیے جذباتی سُنیوں کو استعمال کیا۔ اور پھر انتہا پسند سُنیوں کی گوشمالی کے لیے شعیوں کو استعمال کرتی رہی ہے۔ نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک جانب واضع جھکاو کی پالیسی کو ترک کر کے ریاست دونوں طرف کے انتہا پسندوں کے خلاف برابری کی سطح پر غیر جانبدارآپریشن کرے۔ تاکہ ہمارا معاشرہ دونوں جانب کے مٹھی بھر انتہا پسندوں کے نرغے سے آزاد ہو سکے۔

1 comment:

  1. درست مہتاب بھائی۔

    ہمارے سماج میں ایرانی انقلاب اور وہابی انقلاب سے کے اثرات کی وجہ سے فرقہ واریت اور فرقہ وارانہ تشدد میں شدید اضافہ ہوا ہے۔

    ReplyDelete

جمال خاشقجی کا قتل، سعودی شقاوت اور آزدی اظہار رائے

سعودیہ کا ایک اور جھوٹ بے نقاب ہوا’ مقتول سعودی صحافی جمال خاشقجی کے جسم کے اعضاء سعودی قونصلر جنرل محمد العتیبی کے استنبول میں واقع ...