Monday, August 14, 2017

یوم آزادی اور حقیقی آزادی کی منزل کا حصول

حقیقی آزادی سے محرومی صرف پاکستان کا ہی مسئلہ نہیں ہے۔
تیسری دنیا (Third World) کے تمام ہی ممالک حقیقی آزادی سے کوسوں دور ہیں۔ ہم اس وقت ’مابعد استعماری دور‘ (Post Colonial Era) میں زندہ ہیں۔ یہ دور افریقہ اور ایشیا کے پورے سابق نو آبادیاتی خطے پر یکساں مسلط ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد جب یورپی قابضین کے لیے اپنی کالونیوں پر براہ راست قبضہ برقرار رکھنا مہنگا ہوگیا تو انہوں متبادل انتظام کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ متبادل انتظام دو مختلف سطعوں پر مشتعمل ہے۔
اول استعماری طاقتوں نے یہاں ایک اشرافیہ (Elite Class) تخلیق کی، جس کے مفادات اپنے ملک سے زیادہ استعماری طاقتوں (Colonialist) sy سے وابسطہ ہیں۔ یہ اشرافیہ سول و ملٹری نوکرشاہی، سیاستدانوں اور بڑے کاروباریوں پر مشتعمل ہے۔ (اس اشرافیہ کی تخلیق کس طرح کی گئی اور اس کو کیسے کنٹرول کیا جا رہا ہے، یہ ایک الگ اور تفصیل طلب موضوع ہے، جس پر پھر کبھی گفتگو کی جائے گی) بادی النظر میں اشرافیہ کی پہچان یہ ہے کہ ان کے بچے استعماری ممالک میں پڑھتے ہیں، ان کے کاروبار، جائیداد اور بنک اکاونٹ انہی ممالک میں ہوتے ہیں، یہ اپنے علاج کے لیے بھی استعماری ممالک کو ترجیح دیتے ہیں۔
بلواسطہ حکمرانی کی دوسری سطع بین القوامی تنظیمیں ہیں۔ جیسے اقوام متحدہ، ولڈ بینک، آئی ایم ایف، ولڈ ٹریڈ آرگنائزیشن، وغیرہ، نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں اور میڈیا۔ یہ تمام تنظیمیں اور ادارے مل کر ترقی پزیر ممالک کو اپنے جال میں جھکڑے رکھتے ہیں۔ ان کا اولین مقصد ان ممالک کے عوام کا خون نچوڑنا اور استعماریوں کے مفادات کا تحفظ ہے۔ ان تنظیموں اور اداروں کا ثانوی مقصد ہے کہ اگر کسی ملک کی اشرافیہ کا کوئی طبقہ استعماری مفادات سے روح گردانی کرنا شروع کر دے۔ یا پھر کسی ملک کے اقتدار پر اشرافیہ کے بجائے عوام کے حقیقی نمائندے پہنچ جائیں، تو انہیں روکا جائے۔
ایسی صورت میں یہ تنظیمیں کُھل کر حرکت میں آتی ہیں، پہلے مرحلے اُس ملک کو ولڈ بینک، آئی ایم ایف وٖغیرہ اقتصادی طور پر دیوالیہ کرتے ہیں۔ تاکہ عوام کو روٹی کے لالے پڑھ جائیں اور وہ حکومت سے بدظن ہوں۔ پھر انسانی حقوق کی تنظیمیں اُس ملک کے خلاف الزامات کا طوفان برپا کرتی ہیں، اور میڈیا رائے عامہ ہموار کرتا ہے۔
اس کے بعد کا مرحلہ دو مختلف انداز میں طے پاتا ہے، حالات کے مطابق یا تو مقامی اشرافیہ کی مدد سے تخہ الٹ دیا جاتا ہے۔ یا پھر اقوام متحدہ باقاعدہ فوجی کاروائی کی اجازت دیتی ہے اور پھر استعماری ممالک کی فوجیں چڑ دوڑتیں ہیں۔
یہاں تک کہ اقتدار پھر استعماری طاقتوں کی وفادار اور تابع فرمان اشرافیہ کے ہاتھ آ جائے۔
مصنوعی طور پر حالات خراب کر کے اقتدار دوبارہ مقامی اشرافیہ کے حوالے کرنے کی درجنوں مثالیں موجود ہیں، جن میں سے ایران میں ڈاکٹر مصدق اور مصر میں اخوان کی حکومت کے خلاف ہونے والے آپریشن ہمارے ہاں معروف ہیں۔
اقوام متحدہ کی زیر نگرانی جنگی کاروائیوں کی مثالیں، افغانستان میں طالبان کی حکومت کا خاتمہ، عراق میں صدام اور لیبیا میں قذافی کی حکومتوں کا خاتمہ ہمارے سامنے ہے۔
استعماری طاقتوں کی اس نئی غلامی سے آزادی کا خواب تک پورا ہونا ممکن نہیں، جب تک اس غلامی کی آگاہی عوام کو نہیں ہو جاتی اور اُن میں اس غلامی سے آزادی کے لیے بھی وہی جذبہ بیدار نہیں ہوجاتا جو استعماری طاقتوی کی براہ راست غلامی کے خلاف بیدار ہوا تھا۔ اس پورے نظام سے مکمل آگاہی کے بغیر اس سے نجاعت کے لیے کی جانے والی تمام کوششیں اندھیرے میں تیر چلانے کے مترادف ہیں۔ یہی وجہ ہے آج تک کہیں بھی معمولی سی کامیابی بھی نصیب نہیں ہو سکی ہے۔

No comments:

Post a Comment

جمال خاشقجی کا قتل، سعودی شقاوت اور آزدی اظہار رائے

سعودیہ کا ایک اور جھوٹ بے نقاب ہوا’ مقتول سعودی صحافی جمال خاشقجی کے جسم کے اعضاء سعودی قونصلر جنرل محمد العتیبی کے استنبول میں واقع ...