Monday, October 29, 2018

جمال خاشقجی کا قتل، سعودی شقاوت اور آزدی اظہار رائے


سعودیہ کا ایک اور جھوٹ بے نقاب ہوا’ مقتول سعودی صحافی جمال خاشقجی کے جسم کے اعضاء سعودی قونصلر جنرل محمد العتیبی کے استنبول میں واقع گھر سے مل گئے ہیں ۔ یوں 2 اکتوبر کو جمال خاشقجی کی سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے بعد سے شروع ہونے والی داستان کا ڈراپ سین ہو گیا۔
خاشقجی کا قتل اور اس کا طریقہ کار تو اب ایک کھلی حقیقت کے طور پر سامنے آ چکا ہے، سعودی حکومت قتل کا اعتراف کر چکی ہے۔ سعودی حکومت نے اپنے 15 اہلکاروں کو گرفتار جبکہ ولی عہد محمد بن سلیمان کے دو انتہائی قریب اعلیٰاہلکاروں کا برطرف بھی کیا ہے۔ تاہم اس کے محرکات ابھی تک واضع نہیں ہو سکے۔ ترک ذرائع ابلاغ کا دعویٰ ہے کہ جمال خاشقجی کا قتل سعودی ولی عہد کے حکم پر کیا گیا، ایک میڈیا ہاوس نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ قتل سے پہلے جمال کی محمد بن سلیمان سے ٹیلیفونک گفتگو بھی کرائی گئی۔ اس کے برعکس ہر لمحے اپنے پوزیشن تبدیل کرتی سعودی حکومت کا اس وقت یہ ماننا ہے اُن کے اہلکاروں نے احکامات سے تجاوز کرتے ہوئے جمال خاشقجی کو قتل کیا ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے سعودی عرب کی اس ایشو پر جس طرح ہم نوائی کی گئی اُس کے نتیجے میں قتل کا واقعہ خبروں کے سیلاب میں کہیں دب جانا چاہیے تھا۔ لیکن ترک حکومت کی کمٹمنٹ کے سامنے سعودیہ کو گھٹنے ٹیکنے پڑھ گئے، وہ قتل کے اعتراف پر مجبور ہوا۔ گزشتہ روز رجب طیب اردوغان نے اپنی سیاسی جماعت کے ارکان پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ‘‘ترکی کے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ دو اکتوبر کو سعودی قونصل خانے میں جمال خاشقجی کے 'وحشیانہ' قتل کی منصوبہ بندی پہلے سے کی گئی تھی۔ اسی خطاب کے دوران انہوں نے انھوں نے سعودی عرب سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ جواب دے کہ جمال خاشقجی کی لاش کہا ہے اور اور اس کارروائی کا حکم کس نے دیا تھا۔’’

اردگان کے مطالبے کے پہلے حصے پر عمل درامد تو ہوچکا، جمال خاشقجی کی نعش کی باقیات کی نشاندہی تو کر دی گئی ہے۔ (اگرچہ اس حوالے سے بھی ذرائع ابلاغ کا دعویٰ ہے کہ نعش کی نشاندی منحرف سعودی سفارتکار نے کی ہے) حالات سے لگتا ہے کہ جلد ہی سعودیہ کو قتل کے منصوبہ ساز کو بھی مجبورا سامنے لانا ہی پڑے گا۔
اس پوری کہانی میں جہاں سعودی حکومت کی شقاوت اوربربریت نمایاں ہو کر سامنے آئی وہیں ہر قدم پر جھوٹ اور غلط بیانی کا مظاہرہ بھی دیکھنے میں آیا ۔
سعودی بادشاہت اپنے لیے خادم حرمین شریفین کا لقب پسند کرتی اور مملکت سعودیہ میں اسلامی نظام کے نفاذ کی دعویدار ہے’ کی ساکھ کے لیے مسلسل جھوٹ دھچکا ثابت ہوئے ہیں ۔
اس سلسلے کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ امام کعبۃ اللہ شریف عبد الرحمن السدیس نے خطبہ جمعہ میں کہا کہ جمال خاشقجی استبول میں سعودی قونصل خانے آمد کے بعد کہیں گم ہو گئے ۔ اس پر سعودیہ کے خلاف جھوٹے الزامات لگائے جا رہے ہیں ۔ حرم کعبہ جیسی مقدس اور محترم جگہ پر نماز جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ قتل کی الزام تراشی سے سعودی عرب کے حوصلہ پست نہیں ہوں گے ۔ بلکہ اس کے حوصلے ہمیشہ بلند رہیں گے ۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ امام کعبہ نے اپنے منصب اور کعبہ جیسے مقدس مقام کو سعودی بادشاہت کے دفاع کے لیے استعمال کیا ۔جبکہ کچھ ہی گھنٹوں بعد سعودی حکومت نے سرکاری طور پر تسلیم کر لیا کہ جمال خاشقجی سعودی سفارت خانے کے اندر مارے گئے تھے ۔
جمال خاشقجی کے قتل سے سعودی بادشاہت کا یہ پہلو بھی بہت نمایاں ہو کر سامنے آیا کہ مخالفین اور ناقدین سے سعودی حکومت کا رویہ انتہائی ظلم و شقاوت پر مبنی ہے ۔ اس وقت سعودیہ میں بلا شبہ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو جیلوں اور اذیت کے مراکز میں پابند سلاسل کیا ہوا ہے ۔ بعض ذرائع کے مطابق محبوس افراد کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔ انسانی حقوق کے اداروں اور مغربی ممالک کی جانب سے خواتین کو تفریح اور ڈرائیونگ کا حق نہ ملنے پر تو سعودیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ لیکن ہزاروں افراد کو برسوں سے حراست میں رکھے جانے پر خاموشی اختیار کی جاتی ہے ۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سعودی حکومت ضمیر کے قیدیوں کو دہشت گردوں یا شدت پسندوں کا ہمدرد بتاتی ہے ۔ اکیسویں صدی کا یہ المیہ ہے کہ شدت پسندی یا دہشت گردوں کا حامی ہونے کا الزام کسی فرد کو ہر قسم کے انسانی حقوق سے محروم کر دینے کا جواز تسلیم کر لیا گیا ہے ۔ (گزشتہ صدی کے دوران کیمونسٹ ممالک میں ‘بورژوا’ یعنی سرمایہ داری اور جاگیر داری کا حامی جبکہ سرمایہ دارانہ ممالک میں کیمونسٹ اور تخریب پسند کی اصطلاحات اس مقصد کے لیے استعمال کی جاتیں تھیں) آج دنیا بھر کی ظالم ریاستیں اور ادارے اپنے مخالفین پر ظلم و ستم ڈھانے کے لیے اُن پر شدت پسندی کا لیبل لگاتی ہیں۔ جس کے بعد ان کے حق میں آواز بلند کرنا خود کو انکی صف میں لاکھڑا کرنے کے مترادف ہے۔ اس کارڈ کا سعودی حکومت نے انتہائی بیدردی سے استعمال کیا ہے ۔
سعودیہ میں قید و بند کی اذیتوں میں مبتلا افراد کی بڑی تعداد کو چار مختلف درجات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
ان میں ایک تعداد تو آل سعود کے مخالف قبائل کی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے خاندانوں سے مختلف علاقوں کا کنٹرول آل سعود نے چھینا تھا۔ یا پھر جن کے بارے میں آلِ سعود کو خدشہ ہے کہ یہ کسی موقع پر ان کے اقتدار کے لیے حریف ثابت ہو سکتے ہیں ۔
دوسرے درجے میں وہ لوگ ہیں جنہیں آل سعود کی مذہبی پالیسی سے اختلاف ہے۔ ان میں طریف اور اطراف کے شیعہ اور محمد بن عبد الوہاب کے نظریے سے اتفاق نہ رکھنے والے سُنی العقیدہ مسلمان بھی شامل ہیں ۔
تیسرے درجے میں وہ لوگ شامل ہیں جو اصلاحات’ جمہوریت اور اظہار رائے کے حامی ہیں ۔ اگرچہ اس درجے کے لوگ 1950 سے ہی زیر عتاب ہیں ۔ لیکن گزشتہ عشرے میں جب عرب بہار کے تحت کئی ممالک میں انقلاب آیا تو سعودی عرب میں ایسے افراد کی بڑی تعداد کو پابند سلاسل کر دیا گیا ۔ خصوصا مصر میں جمہوریت کی بحالی اور اخوان المسلمین کی حکومت کے قیام کے بعد سعودی عرب نے امریکی آشیر باد اور کویت و متحدہ عرب امارات کے تعاون سے اُس کا تختہ اُلٹنے میں سب اہم کردار ادا کیا۔ ساتھ ہی سعودی عرب کے اندر اخوان کی فکر کے حامیوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ۔ ہزاروں افراد کو جیلوں میں ڈالا گیا ۔ جنہیں انسانیت سوز اذیتیں دی گئیں اور بہت سے افراد ان ہی اذیتوں کو سہتے سہتے جان کی بازی ہار گئے ۔
چوتھے درجے میں وہ لوگ شامل ہیں ۔ جنہیں نو منتخب ولی عہد محمد بن سلمان کی اصلاحات اور مغرب طرز زندگی کی ترویج کی مخالفت یا اس پر تنقید کی پاداش میں جیلوں میں ڈالا گیا۔ قریباً ایک صدی کی آل سعود کی روایات اور فکر و فلسفہ کو جب محمد بن سلمان نے بیک جنبش قلم مسترد دیا ۔ اور مملکت کے لیے نیا وژن 2030 متعارف کرایا ۔ جو راویت پسند حلقوں کے لیے اسے قبول کرنا مشکل کام تھا۔ قید و اذیت کے اس نئے درجے میں صرف جید علمائے دین کی تعداد قریباً 4 ہزار سے زائد ہے ۔ شہریوں کی بڑی تعداد اس کے علاوہ ہے ۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پر تنقیدی آرٹیکل لکھنے پر صحافی جمال خاشقجی کو ترکی میں واقع سعودی قونصل خانے میں انتہائی بربریت اور بہیمانیت سے قتل کیا گیا۔ صحافی جمال خاشقجی اور کا خاندان نہ صرف سعودی عرب بلکہ پوری عرب دنیا میں جدت اور ترقی پسندی کا استعارہ ہے۔ اس ضمن میں خاشقجی خاندان ولی عہد کے وژن سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے۔ دوسری جانب خاشقجی خاندان آل سعود سے قربت کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے ۔ اسی لیے سعودی اسلحہ کے سوداگر کے طور پر عدنان خاشقجی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ ایسے میں چند تنقیدی مضامین میں سعودی عرب کے نو منتخب ولی عہد کی صلاحتیوں پر اٹھے سوالات سے نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ جمال خاشقجی کو نشانِ عبرت بنانے کے لیے آل سعود نے اپنی ساکھ تک داؤ پر لگایا دیا ۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مملکت کے اندر جو افراد حکومت پر تنقید یا مخالفت کے الزامات میں قید ہوں گے اُن کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہو گا ؟
اس منظر نامے کا ایک پہلو صحافیوں کو درپیش خطرات اور معدوم ہوتی آزادی اظہار بھی ہے۔جمال خاشقجی کے قتل کے بعد شائع ہونے والے انکے آخری کالم میں لکھا ہے:
‘‘اندھیرا اور گہرا ہوگیا’ میڈیا کے خلاف کریک ڈاﺅن پر کوئی عالمی رد عمل نہ آنے پر عرب ممالک میں زبان بندی کا عمل اور تیز ہو رہا ہے’’۔
جمال خاشقجی نے مزید لکھا کہ :
‘‘ عرب ممالک میں سرکاری میڈیا کی جانب سے عوام کو غلط معلومات فراہم کی جاتی ہیں’ عربوں کو آزاد میڈیا کی ضرورت ہے’’ ۔
جمال خاشقجی کے لکھے آخری الفاظ نہ صرف عرب ممالک بلکہ پوری دنیا پر صادق آ رہے ہیں ۔ آج مشرق سے مغرب میں کہیں بھی مکمل آزاد میڈیا کا تصور خاصا محال ہے ۔ کہیں حکومتی پابندیاں اور کہیں کارپوریٹ ورلڈ کا جبر سچ کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔
ایک وقت تھا کہ صحافیوں کی زندگیوں کو ایشیا اور افریقہ کے پسماندہ ممالک میں خطرات لاحق ہوتے تھے یا پھر آزادانہ رائے رکھنے والے صحافیوں کی زندگیاں کیمونسٹ ممالک میں خطرات کا شکار ہوا کرتیں تھیں ۔ لیکن اب یورپ بھی صحافیوں کے لیے محفوظ نہیں رہا ۔ یورپی یونین میں ہونے والی کرپشن کی تحقیق کرنے والی بلغاریہ کی وکٹوریہ مارینوا کا قتل ہو یا پھر پانامہ لیکس کے ذریعے کرپشن بے نقاب کرنے والی مالٹا کی صحافی ڈیفنی گیلیزیا کا قتل صورتحال میں بدتری کی نشاندہی ہے ۔
معروف میڈیا واچ ڈاگ رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز کی پریس فریڈم انڈیکس 2018 کے مطابق دنیا کے جن پانچ ممالک میں گزشتہ برس صحافت اور میڈیا کی آزادی شدید متاثر ہوئی’ان میں چار ممالک براعظم یورپ میں واقع ہیں۔ رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز نے اپنی اسی انڈیکس میں کہا ہے :
‘‘یورپ سمیت دنیا بھر میں صحافیوں اور میڈیا مخالف جذبات میں اضافے کی وجہ سے عالمی سطح پر جمہوریت کو بھی سنگین خطرات لاحق ہوچکے ہیں’’۔
کہا جا سکتا ہے کہ نو گیارہ کے بعد دہشت گردی کی جنگ کے لیے بنائی گئیں پالیسیوں کے باعث آج انسانی حقوق، آزادی اظہار اور جمہوریت کو شدید خطرات لاحق ہیں ۔ اقوام عالم کو سوچنا ہوگا کہ انسانی حقوق، آزادی اظہار اور جمہوری اقدار کا تحفظ کیسے یقینی بنایا جا سکتا ہے ۔ ورنہ ہم پھر یورپ کے تاریک عہدِ وسطیٰ میں پہنچ جائیں گے ۔ جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل پر پیدا ہونے والی حساسیت کے نتیجے میں ترقی معکوس کا عمل روکنے کے ٹھوس اقدامات امید افزا ہوں گے۔ اور اگر ایسا نہ ہو سکا تو مستقبل میں آئے روز ہمیں کسی نہ کسی ‘‘جمال خاشقجی’’ کا قتل افسردہ کرتا رہے گا ۔



Sunday, September 16, 2018

خواتین کے حوالے سے دیندار طبقات کا بے جا متشدد رویہ

کچھ عرصہ قبل کی بات ہے۔ ایک مذہبی جماعت کے مقامی ذمہ دار دفتر تشریف لائے۔ وہ توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے خلاف کمپین کی میڈیا کوریج کے حوالے سے تبادلہ خیال کرنا چاہتے تھے۔ گفتگو لمبی ہوئی تو ہم دفتر کے کیفے میں آ گئے۔ بیٹھے ہی تھے کہ نزدیکی میز سے اٹھتے ہوئے ایک خاتون رپورٹر نے مجھ سے پوچھا "میں نے ایک نیوز پیکج کا سکرپٹ ای میل کیا تھا، وہ دیکھا ہے"
میں نے جواب دیا کہ "ہاں مل گیا تھا، سکرپٹ ایڈیٹ کر کے تین بجے کے بلیٹن میں شامل کر دیا ہے، آپ فوری طور پر 'وائس اور' کر کے پیکج مکمل کرائیں۔
" میں بس نماز پڑھ لوں تو وائس اور کرتی ہوں" یہ کہہ کر خاتون رپورٹر وہاں سے چل دیں۔
خاتون کے جاتے ہی میرے سامنے موجود مولانا صاحب کی زبان سے بے ساختہ نکلا کہ " نماز کی اتنی فکر ہے تو حلیہ کم از کم درست کر لیتی" 
جملہ سُن کر مجھے جھٹکا لگا۔ کیوں کہ خاتون کا حلیہ خاصہ مناسب تھا۔ وہ برقعے اور نقاب میں نہ تھی، لیکن کھلے ڈھلے شوار قمیض پر سلیقے سے دوپٹہ اوڑ رکھا تھا۔ 
اس کے بعد مولانا صاحب سے اسی موضوع پر خاصی طویل بحث ہوئی۔ میرا موقف یہ تھا کہ مغرب اور الحاد عورت کو مذہب اور اقدار کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ ایسی خواتین جو پروفیشنل ہونے کے باوجود دین سے رغبت رکھتی ہیں وہ غنیمت ہیں۔ اُں کی حوصلہ افزائی کی جانی چائیے تاکہ دین سے اُن کا تعلق مزید مستحکم ہو۔ نہ کہ تنقید کر کے اُنہیں بدظن کیا جائے۔ مولانا صاحب میرے کسی بھی نکتے سے ایک فیصد بھی متفق نہ ہوئے۔
 البتہ مجھے یہ سمجھ آئی کہ خواتین کے حوالے سے ہمارے دینی طبقے کا رویہ ضرورت سے کہیں زیادہ جارحانہ اور انتہا پسندانہ ہے۔  یہ نقطہ نظر اسلام کی نسبت قبائلی طرز فکر سے زیادہ قریب ہے۔ ہم خواتین کو وہ حقوق دینے کو بھی تیار نہیں ہیں جو قرون اولیٰ کی خواتین کو حاصل تھے۔ مثال کے طور پر پسند کی شادی کی اجازت، کاروبار کرنے کی آزادی وغیرہ۔ نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ دین بیزار لوگ بڑی آسانی کے ساتھ خواتین کو دین سے برگشتہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ جس کے اثرات آئیندہ نسلوں پر مرتب ہوتے ہیں۔ 

میرا ذاتی خیال یہی ہے کہ خواتین کے حوالے سے ہمیں اپنے رویے اور نکتہ نظر پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مغرب سے متاثر لوگ جہاں صرف نظر کے پردے کو کافی سمجھتے ہیں۔ وہیں سر سے پاوں سے لپٹی ہوئی خاتون کے با امر مجبوری گھر سے نکلنے کو بھی فحاشی قرار دینے والوں کی بھی کمی نہیں۔ ایسے میں راہ اعتدال کا حدود اربعہ تلاش کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو چکا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا علما نے عصر حاضر میں اس سلسلے میں کوئی باقاعدہ غور و فکر کیا ہے؟
 کہ ایک خاتون کا آئیڈیل لباس کیا ہونا چائیے یہ تو سب کو معلوم ہے، البتہ کیا اس کا تعین بھی کیا گیا ہے کہ لباس کے معاملے میں زیادہ سے زیادہ گنجائش کیا ہے؟
چہرے کے پردے کے سلسلے میں علما کا اختلاف کیا ہے؟

اگر اعتدال پسند علما رہنمائی فرمائیں تو ہمارے معاشرے پر بہت بڑا احسان ہو گا۔

اسرائیل کا قیام اور سیکولر مسلمانوں کا کردار

Image result for balfour declaration


اعلان بالفور دراصل فلسطین پر قبضے کے دوران اس وقت کی برطانوی حکومت کی یہودیوں کے ساتھ ہونے والے ایک خفیہ معاہدے کی توثیق کی تھی، جس میں پہلی جنگ عظیم کے بعد سلطنت عثمانیہ پر قبضے کی صورت میں برطانیہ نے صہیونیوں کو اس بات کا یقین دلایا تھا کہ وہ سر زمین فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام میں ان کی بھرپور اور عملی مدد کریے گی۔

اسی اعلان کے تحت بعد ازاں دنیا بھر کے یہودیوں کی فلسطین منتقلی شروع ہوئی، دہشت گردی کی کاروائیوں کے زریعے مسلمانوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کیا گیا اور بلآخر سنہ 1948ء میں عالم اسلام کے قلب میں صہیونی ریاست قائم کی گئی۔

اسرائیل کے قیام کی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو جہاں ایک طرف برطانیہ کا مجرمانہ کردار نطر آتا ہے وہیں نام نہاد سیکولر مسلمانوں کی غداریاں بھی کھل کر سامنے آتی ہیں۔

اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کرنے کے لئے مصطفی کمال پاشا نے خلافت کے خاتمے کا اعلان کیا۔ اور خلافت اسلامیہ کی حدود پر اصرار کرنے کے بجائے استعماری تقسیم کو قبول کر لیا ورنہ اسرائیل کا قیام کبی بھی قانونی سند جواز نہ پا سکتا۔ 

پھر اس ناجائز اور غیر قانونی ریاست اسرائیل کو تسلیم کرکے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والا پہلا مسلم ملک سلیکولر مصطفی کمال پاشا کا ترکی تھا۔ ایک مصطفی پاشا ہی کیا اگر مصر، شام، لبنان، اردن اور تیونس پر قابض سیکولر حکمران اگر درپردہ اسرائیل کی معاونت نہ کرتے تو اس کے لئے تمام تو مغربی امداد کے ہوتے ہوئے بھی اپنا وجود برقرار رکھنا ممکن نہ ہوتا۔

آج بھی غزہ کی مزاحمت پر قابو پانے کے لیے مصر اسرائیل ناکہ بندی میں مکمل حصے دار ہے۔ دوسری جانب متحدہ عرب امارات، بحرین، کویت اور سعودیہ اس مزاحمت کو کُچلنے کی اسرائیلی کوششوں معاون اور مددگار ہیں۔ یہاں تک کہ چند ماہ پہلے جب عرب راجواڑوں نے قطر کی ناکہ بندی کی تو اُس کے خلاف پیش کی جانے والے فردِ جرم میں ایک جرم یہ بھی درج تھا کہ قطر فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس کی مدد کر رہا ہے۔ 

 اعلان بالفور کی سویں سالگرہ کے موقع پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے ایک ملین لوگوں کے دستخط جمع کرنے کی مہم کی تھی۔ جس میں برطانیہ سے کہا گیا کہ وہ فلسطینیوں سے معافی مانگے۔ اس مہم کی روح رواں تنظیموں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ برطانوی حکومت سے فلسطینیوں سے معافی منگوانے کے لیے عدالت سے بھی رجوع کریں گے۔ 

میں یہ سوچ رہا ہوں کہ ان نام نہاد سیکولر مسلمانوں کی غداریوں کی معافی کس سے منگوائی جائے اور کون سی عدالت سے رجوع کیا جائے۔ یہ تو آج بھی اسلام کے بجائے کفر کے حمایتی ہیں، اور مسلمانوں کی سرزمینوں کو کفار اور انکے ایجنٹوں کے حوالے کرنے کے لئے امت مسلمہ کے وسائل کو استعمال کر رہے ہیں۔

اگر امت کے بیدار مغز نوجون ان آستین کے سانپوں کو پہچان جائیں تو یہ امت مسلمہ کی نشاط ثانیہ کا نقطہ آغاز ہو گا۔



Friday, June 29, 2018

کیا عمران خان ہنی ٹریپ کا شکار ہوچکے ہیں؟؟



حالات تو اسی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے سربراہ اس جال میں پھنس چکے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ 66 سال کا جہاندیدہ سیاستدان کیا دامِ الفت (honey trap) کا شکار ہو سکتا ہے؟
اس کا جواب ہاں میں ہے، دنیا کے کئی سیاسی اور عسکری رہنماوں کی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ جہیں ڈھلتی یا آخری عمر میں دامِ الفت (honey trap) میں پھنسا کر استعمال کیا گیا۔
خصوصا پاکستانی سیاستدانوں اور فوجی سربراہوں کے ریکارڈ تو اس سلسلے میں بہت خراب ہے۔

دامِ الفت (honey trap) میں پھنسنے والوں میں پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ جن کا تعلق پنجاب کے علاقے کرنال سے تھا۔ جنہوں نے 38 سال کی عمر میں دوسری شادی بیگم رعنا سے 1936 میں ہوئی۔ بیگم رعنا کی پیدائش ہندوستان کے علاقے اترکھنڈ میں الموڑہ کے مقام پرایک عیسائی خاندان میں ہوئی اور ان کے والد ڈینیل پنت نے ان کا نام شیلا آئرین پنت رکھا تھا۔ شیلا آئرین پنت نے بعد میں لیاقت علیخان کی محبت میں گرفتار ہو کر اپنا مذہب تبدیل کیا۔ اور شادی کے بعد رعنا لیاقت علی خان بن گئیں۔ پاکستان آرمی نے انہیں پہلی خاتون بریگیڈئر جنرل کا اعزاز دیا۔آپ نے پاکستان کی پہلی خاتون سفیر کے طور نیدرلینڈ، اٹلی اور تیونس میں خدمات سرانجام دیں۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ میں وزیر رہیں۔بعدازاں بھٹو نے انہیں سندھ کی پہلی خاتون گورنر کے طورپر تعنیات کیا۔ بیگم رعنا پاکستان میں خواتین کو گھروں سے نکالنے، آزاد خیالی اور پردے کی مخالفت کی بانی ہیں۔ انہوں نے اپوا کی بنیاد رکھی جس نے پاکستان کی ابتدا سے شرعی قوانین کے نفاذ کی مخالفت کی۔ 
Image may contain: one or more people and people sitting


دامِ الفت (honey trap) کا باقاعدہ شکار ہونے والا پہلا پاکستانی سربراہ گورنر جنرل غلام محمد تھا۔ فالج کا شکار یہ معذور شخص آخری عمر میں ایک جرمن نژاد امریکی خاتون روتھ بورال کی زلف کا اسیر ہوا۔ یہ ایک ایسا سربراہ تھا فالج کی وجہ سے جس کی زبان بھی کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا۔ اور نہ ہی یہ کسی کاغذ پر دستخط کر سکتا تھا۔ اس کے بیانات اورہر طرح کے احکامات پر دستخط اس کی امریکی سیکریٹری ہی جاری کرتی تھی۔ اس حالت میں اس نے امریکیوں کو پہلی بار پاکستان میں مداخلت کا موقعہ دیا۔ اور پشاور کے نزدیک بڈبھیر کا ہوائی اڈا امریکیوں کو دیا۔ اسی نے اسمبلیاں توڑ کر غلط رسم کا آگاز کیا، امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر محمد علی بوگرا کو اچانک وزیر اعظم مقرر کر کے پورے ملک کو حیران کر دیا۔ یہی دور تھا جب پاکستان امریکی کالونی بنا۔Image may contain: 2 people
امریکی میں تعنات پاکستانی سفیر کو اچانک پاکستان کا تیسرا وزیراعظم محمد علی بوگرہ بنائے گئے تھے۔ جن کے دور میں پاکستان میں امریکیوں کو خصوصی مراعات حاصل ہوئیں۔ بوگرا صاحب بھی امریکی میں تعناےی کے دوران دامِ الفت کا شکار ہوئے۔ انکی دوسری بیوی عالیہ سدی لبنانی نژاد امریکی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔
پاکستان کے ایک اور وزیراعظم حسین شہید سہروردی بھی دام الفت کا شکار ہوئے۔ اُن کی دوسری اہلیہ کا تعلق روس سے تھا۔ وہ ماسکو آرٹ تھیٹر سے وابستہ ایک روسی اداکارہ تھیں۔ ان کا نام ویرا الیگزینڈرونا کالڈر تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ حسین شہید سہروردی کا پاکستان میں جاری روس امریکہ کشمکش کے دوران جھکاو روس کی جانب تھا۔
پاکستان کے ساتویں وزیر اعظم ملک فیروز خان نون کی اہلیہ بیگم وقار النسا نون کا تعلق اسٹریا سے تھا۔ ان کا پیدائشی نام وکٹوریہ ریکھی تھا۔ ملک فیروز خان نون جب برطانیہ میں حکومت ہند کے ہائی کمشنر تھے تب ان کی ملاقات وکٹوریہ سے ہوئی۔ جس کے بعد دونوں کی محبت کا آغاز ہوا جو شادی پر منتہج ہوئی۔ بعد ازاں وکٹوریہ اپنا مذہب اور نام ترک کر کے بیگم وقار النسا نون ہوگئیں۔ یہ خواتین کی آزاد خیالی کی حامی اولین تنظیم اپواء کے بانیوں میں شامل تھیں۔ پاکستان میں تعلیم کو سیکولر خطوط پر ڈھالنے میں ان کا اہم کردار ہے۔
ہنی ٹریپ کا دوسرا شکار پاکستان کا آخری گورنر جنرل اور پہلا صدر سکندر مرزا تھا۔ جسے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ معروف غدار میر جعفر کا پڑپوتا تھا۔ اس کی دوسری اہلیہ ناہید افغامی سے محبت اور شادی کو باقاعدہ ایرانی انٹیلیجنس کا کارنامہ قرار دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ اُس وقت کی ایرانی انٹیلیجنس امریکی سی آئی اے کا ایک ذیلی ادارہ سمجھی جاتی تھی۔ نائید افغامی پاکستان میں ایران کے ملٹری اتاشی کی بیوی کی حیثیت سے پاکستان آئیں۔ ایران کے ڈیفنس اتاشی کی اہلیہ کی حیثیت سے اُن کی ملاقات اُس وقت کےڈیفنس سیکرٹری میجر جنرل سکندر مرزا سے ہوئی۔ ملاقاتیں محبت میں بدل گئیں۔ پھر نائید نے اپنے ایرانی شوہر سے طلاق حاصل کر کے اسکندر مرزا سے شادی کر لی۔ میجر جنرل سکندر مرزا کے چور دروازے سے اقتدار میں آنے کے بعد نائید ملک کے سیاہ اور سفید کی مالک بن گئیں۔ اس دور میں ایران اور امریکہ کے مفاد میں ہونے والے اقدامات کی تفصیل کے لیے ایک پوری کتاب درکار ہے۔ Image may contain: 2 people, people smiling, people standing and suit
پاکستان کے دوسرے فوجی آمر آغا محمد یحیٰ خان کا کردار اتنا گھنونہ ہے کہ اُس پر بات کرت ہوئے گھن آتی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یحیٰ خان کی داشتہ اقلیم اختر المعروف جنرل رانی بھی غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ایجنٹ تھی۔Image may contain: 1 person
ایرانی انٹیلیجنس کا دوسرا کارنامہ ذولفقار علی بھٹو کو دام الفت میں گرفتار کرنا قرار دیا جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی دوسری اہلیہ بیگم نصرت اصفحانی کا تعلق ایران کے شہر اصفحان سے تھا۔ وہ گریجویشن کے بعد پاکستان آئیں، جہاں کراچی میں اُن کی ملاقات بھٹو سے کرائی گئی۔ جو پہلے محبت اور پھر شادی کا باعث بنی۔ ذولفقار علی بھٹو کے کئی اقدامات کے پیچھے نصرت بھٹو کی وساطت سے ایرانی اثرات کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ Image may contain: 2 people, suit and indoor
یہ بھی حقیقت ہے ذولفقار علی بھٹو کی اقتدار سے برطرفی کے بعد میں سزائے موت کے بعد ان کا خاندان افغانستان اور پھر شام منتقل ہوا۔ دونوں ممالک اُس وقت ایران کے زیر اثر تھے۔ خاندان کے باقی افراد بعد ازاں مغربی ممالک چلے گئے لیکن دہشت گردی کی متعدد وارداتوں میں پاکستان کو مطلوب میر مرتضیٰ بھٹو شام میں ہی مقیم رہے۔ جن کی اہلیہ غنویٰ بھٹو کا تعلق بھی شام سے ہے۔

Wednesday, December 6, 2017

بابری مسجد تنازعے کی تاریخ

انتہا پسند ہندوں کے ہاتھوں بابری مسجد کی شہادت کو 25 سال بیت گئے۔
6 دسمبر 1992ء کو بھارتی نیم فوجی دستوں،ہندو انتہا پسند شیوسینا، آر ایس ایس کے غنڈوں نے حکومتی سرپرستی میں 16ویں صدی کی تاریخی بابری مسجد کو شہید کر دیا تھا۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد بھارت میں مسلم کُش فسادات میں 3 ہزار سے زائد مسلمانوں کو بھی شہید کیا گیا تھا۔ جس کے خلاف اُس وقت کے اتر پردیش کے وزیراعلیٰ کلیان سنگھ اور شیو سینا کے سربراہ بال ٹھاکرے اور ایل کے ایڈوانی
سمیت 49 افراد کے خلاف مقدمات درج ہوئے تھے۔ 24 سال گزرنے کے باوجود کسی بھی ملزم کوسزا نہیں ہو سکی ہے۔
تین گنبدوں والی بابری مسجد شہنشاہ ”بابر“ کے دور میں اودھ کے حاکم ”میرباقی اصفہانی“ نے935 ہجری بمطابق 1528ء میں تعمیر کرائی تھی، مسجد کے مسقف حصہ میں تین صفیں تھیں اور ہر صف میں ایک سو بیس نمازی کھڑے ہوسکتے تھے، صحن میں چار صفوں کی وسعت تھی، اس طرح بیک وقت ساڑھے آٹھ سو مصلی نماز ادا کرسکتے تھے۔
اپنی ابتداء تعمیر سے لے کر 1949ء تک یہ مسجد بغیر کسی نزاع و اختلاف کے مسجد ہی کی حیثیت سے مسلمانوں کی ایک مقدس و محترم عبادت گاہ رہی اور مسلمان امن وسکون کے ساتھ اس میں اپنی مذہبی عبادت ادا کرتے تھے۔ اگرچہ اس دوران شاطر انگریزوں نے تقسیم کرو اور حکومت کرو کے اپنے فلسفے کے مطابق سب سے پہلے ‘‘ رام جنم استھان’’ اور ‘‘سیتا کی رسوئی’’ کا افسانہ ترتیب دیا۔ 1855ء میں ایک بدھسٹ نجومی سے ان دونوں مقامات کی جگہ معلوم کی خاطر زائچہ کھینچوایا گیا۔ جس نے طے شدہ سازش کے عین مطابق زائچہ کھینچ کر ”جنم استھان“ اور ”سیتا کی رسوئی“ کو بابری مسجد سے متصل احاطہ کے اندر بتایا۔ پھر انگریزوں کی ایما پر رافضی العقیدہ ”نقی علی خاں“ جو لکھنو کے مشہور نواب واجد علی کا خسر اور وزیر تھا، نے بابری مسجد کی عمارت ک باہر مگر اس کے احاطہ کے اندر کی جگہ کو ‘‘جنم استھان و سیتا رسوئی’’ کے لئے دے دیا۔
1857 ء میں جب کہ ہندوستان کے مسلمانوں اور ہندوؤں نے متحد ہوکر بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی کا
 بگل بجا، تو باہمی اتفاق و یگانگت کو مستحکم کرنے کی غرض سے اجودھیا کے مسلم رہنما امیر علی اور ہندو رہنما بابا چرن داس نے رام جنم استھان اور بابری مسجد کے تنازعہ کو ہمیشہ کے واسطے ختم کرنے کی غرض سے ایک معاہدہ کیا کہ رام جنم استھان کی مخصوص متنازعہ اراضی ہندوؤں کے حوالہ کردی جائے اور ہندو بابری مسجد کی عمارت سے دست کش ہوجائیں، انگریز جب دوبارہ فیض آباد پر قابض ہوئے تو انہوں نے ہند مسلم اتحاد کو تاراج کرنے کے لئے ، انھوں نے بابارام چرن داس اور امیر علی دونوں کو ایک ساتھ املی کے پیڑ پر لٹکاکر پھانسی دیدی ۔ مندر مسجد کے نزاع کو از سر نو زندہ کرنے کی غرض سے متنازعہ رام جنم استھان اور بابری مسجد کے معاہدے کو کلعدم قرار دے دیا ۔ 
1858ء سے لے کر 1948 ء تک حالات جوں کے توُں رہے۔ 23 اور 22 دسمبر 1949ء کی درمیانی رات کو ایودھیا کے ہنومان گڑھی مندر کے مہنت ‘‘ابھے رام داس’’ نے اپنے کچھ چیلوں کے ساتھ مسجد میں گھس کر عین محراب کے اندر ایک مورتی رکھ دی۔ جس کے بعد یہ افواہ پھیلائی گئی کہ مورتی اچانک محراب میں نمودار ہو گئی ہے۔ فیض آباد کے سٹی مجسٹریٹ نے نقص امن کا بہانہ بنا کر دفعہ 145 کے تحت مسجد اوراس سے ملحق گنج شہیداں کو قرق کرکے مقفل کردیا۔ اور پولیس کا پہرا لگا دیا گیا۔ اس سلسلے میں مولانا حسین احمد مدنی، مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نے کئی بار آنجہانی پنڈت جواہر لال نہرو سے ملاقات کی لیکن مسئلہ حل نہ ہو سکا۔ 35 سال تک مسجد مقفل ہی رہی۔
اس دوران تالا بندی اور پولیس پہرے کے باوجود مسجد کی عمارت میں کئی تبدیلیاں کی گئیں اور مسجد کی عمارت پر کندہ آیات اور احادیث کو کھرچ ڈالا گیا اور احاطے میں دو چھوٹے چھوٹے مندر بنا دیے گئے۔ 30جنوری 1986ء مسٹر کے، ایم، پانڈے ڈسٹرکٹ جج نے اور رمیش پانڈے نامی شخص کی درخواست پر ہندو ں کو بابری مسجد میں پوچا کی اجازت دے دی۔ اس مجرمانہ فیصلے کے بعد، بغیر کسی تاخیر کے 5 بجکر 19 منٹ پر بابری مسجد کا تالا کھول دیاگیا جو 1950ء میں حکم امتناعی کے نفاذ میں لگایا گیا تھا۔ جس پر ہزاروں ہندو جو وہاں جمع کئے گئے تھے پوجا پاٹ کے لئے مسجد میں داخل ہوگئے، تالا کھولنے کی اس شرمناک تقریب کو سیکولر ملک کے نشریاتی ادارے ”دور درشن“ نے بڑے اہتمام سے نشر کیا۔
30اکتوبر1990ء کو یو پی میں ملائم سنگھ وزیر اعلیٰ تھے جب ہزاروں ہندو انتہا پسندوں نے بابری مسجدکو منہدم کرنے کی کوشش کی۔ ملائم سنگھ کے حکم پر شرپسندوں کو روکنے کیلئے گولی چلائی گئی ۔ کچھ ہندو تخریب کار مارے گئے لیکن مسجد کو بچا لیا گیا ۔ دوسری جانب نرسمہا راؤ وزیراظم بنے تو ستمبر1991ء میں ایک بل پیش کیا گیا جس کے تحت مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں کی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی اور 15اگست1947ء کو ان کی جو حیثیت تھی وہ برقرار رہے گی، تاہم بابری مسجد کو نرسمہاراؤ نے اس بل کی شرائط سے مستثنیٰ رکھا۔
1992 میں یوپی مین بی جے پی کی حکومت بنی اور کلیان سنگھ وزیر اعلیٰ مقرر ہوا ۔ جسے کے بعد پورے ہندوستان میں ہندو انتہا پسندوں نے جلسے جلوس نکالے اور ایڈوانی، سنگھل، ونے کٹیار اور اوما بھارتی وغیرہ 2 لاکھ ہندو دہشت گردوں کو لے کر ایودھیا پہنچ گئے ۔ مرکز سے اچھی خاصی تعداد میں فوج بھی اجودھیا پہنچ گئی مگر اسے نامعلوم مصالح کی بنیاد پر بابری مسجد سے دو ڈھائی کلومیٹر دور رکھا گیا، صوبہ اور مرکز کے نیم فوجی دستے مسجد کی حفاظت کے لئے اس کے چاروں سمت میں متعین کئے گئی مگر انھیں وزیراعظم کی سخت ہدایت تھی ہندو تخریب کاروں پر کسی حال میں بھی گولی نہ چلائی جائے۔
یوں 6 دسمبر کی وحشتناک تاریخ آگئی، ایڈوانی، اوما بھارتی وغیرہ کی قیادت میں تخریب کاروں نے گیارہ بج کر پچپن منٹ پر بابری مسجد پر دھاوا بول دیا اور بغیر کسی مزاحمت کے پورے اطمینان سے چار بجے تک اسے توڑتے اور ملبہ کو دور پھینکتے رہے یہاں تک کہ صفحہٴ زمین سے بابری مسجد کا نام و نشان ختم کردیا گیا۔
بابری مسجد اور اس کے تنازعے کی تفصیل جاننے کے لئے ”اجودھیا کے اسلامی آثار“ نامی کتاب کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

Sunday, October 1, 2017

شعیہ سُنی منافقرت کی وجوعات اور حل

شعیہ سُنی اختلاف تو 14 سو سال پرانا ہے۔ 14 صدیوں کے دوران کبھی یہ اختلاف دبا رہا اور کبھی ابھر کر سامنے آجاتا رہا ہے۔
عرب اور ایران کی نسبت ہندوستان میں شعیہ سُنی منافقرت بہت کم رہی ہے۔ تاریخ کو کھنگالنے پر بھی چند ایک واقعات کے علاوہ کسی بڑے فساد کے شواہد نہیں ملتے ہیں۔
اگرچہ ہندوستان میں محمد بن قاسم کی قائم کردہ سلطنت منصورہ کے بعد دوسری اسلامی مملکت جو ملتان میں قائم ہوئی وہ اسماعیلی شعیوں کی تھی۔ تیمور لنگ کے حملے کے بعد مختصر عرصے کہ لیے دہلی میں ایک شعیہ خاندان کی نیم خود مختار حکومت قائم ہوئی۔ اسی طرح شیر شاہ سوری سے شکست کے بعد ہمایوں ایران فرار ہوا، اور انتہائی متعصب شعیہ حکمرانوں یعنی صفویوں کی مدد سے دوبارہ ہندوستان پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا۔ کہا یہ بھی جاتا ہے کہ ہمایوں نے ایران نے باقاعدہ شعیہ مذہب اختیار کر لیا تھا۔ تاہم اس کا اثر مغلوں میں چند شعیہ رسومات کی صورت میں اورنگزیب سے پہلے تک باقی رہا۔ ہندوستان کے مسلمانوں میں کی اکثریت سنی العقیدہ تھی اور ہمیشہ رہی ہے۔
انگریزوں کا برصغیر پر قبضے کے دوران پہلے پہل جن نمایاں شخصیات  واسطہ پڑا وہ بھی شعیہ ہی تھے۔ پلاسی کی جنگ میں انگریزوں کا مقابلہ کرنے والا سراج الدولہ، اور معروف غدار میر جعفر دونوں شعیہ تھے۔ اسی طرح ٹیپو سلطان سے غداری کرنے والا میر صادق بھی شعیہ تھا۔ انگریزوں نے تقسیم کرو کی پالیسی کے مطابق سُنی اکثریت کے مقابلے میں ہمیشہ شعیہ اقلیت کو پروان چڑھایا۔ ایران سے جب آغا خان اول کو انگریزوں کا ایجنٹ ہونے کے الزام میں جلاوطن کیا گیا۔ تو انہیں ہندوستان لا کر مسلمانوں کی قیادت کے منصب پر سرفراز کرایا گیا۔ جس وقت مسلمانان برصغیر خلافت عثمانیہ کے لیے تاریخ ساز تحریک چلا رہے تھے، عین اُسی وقت معروف شعیہ رہنماوں آغا خان اور سید امیر علی نے خلافت عثمانیہ کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ لیکن اس کے باوجود عوام میں شعیہ سنی منافقرت جڑ نہیں پکڑ سکی۔ 
طوالت سے بچنے اور موضوع کو سمجھنے کے لیے  صرف یہی مثال کافی ہوگی  کہ برصغیر میں علمائے دیوبند کی دوسری بڑی جماعت "مجلس احرار" کے جنرل سیکریٹری ایک شعیہ 'مظہر علی اظہر' رہے ہیں ۔ اسی طرح  لکھنو کے ایک شعیہ عالم “تحریک مدح صحابہ" کے روح رواں ہوا کرتے تھے۔ 
پاکستان بننے کے بعد بھی شعیہ سُنی منافقرت کی عمومی فضا بہتر رہی، خصوصا "ختم نبوت " کی پوری تحریک کے دوران شعیہ اور تمام سُنی مکاتیب فکر کے علما ایک ہی سٹیج پر موجود ہوا کرتے تھے۔
معاملات وہاں سے خراب ہونے شروع ہوئے، جب 1979 میں ایران میں آنے والے شعیہ انقلاب کو پاکستان جیسے غالب سُنی اکثریت کے ملک میں درامد کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایرانی انقلاب کے سال ہی پاکستان میں شعیہ عالم مفتی جعفر حسین کی صدارت میں ‘تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان’ کا قیام عمل میں آیا۔ بیسویں صدی کی آٹھویں دھائی کا نصف اول کچھ غالی شعیوں کی جانب سے مسلسل جہاریت اور ہٹ دھرمی کا گواہ ہے۔ اس دوران پاکستان کی پارلیمان کا گھیراو کیا گیا، عمارت کو آگ بھی لگائی گئی۔ زبردستی اپنے مطالبات منوائے گئے۔ اسی طرح کوئٹہ میں پہلا شعیہ سُنی فساد ہوا جس میں کئی سُنی اور سکیورٹی فورسز کے اہلکار مارے گئے۔ اسی دوران ‘بالائی کرم ایجنسی’ خصوصا پارہ چنار سے سُنیوں کا مکمل صفایا کر کے وہاں مضبوط شعیہ ہولڈ قائم کر لیا گیا۔ اسی دوران ایران اور پاکستان کے کئی غالی شعیوں نے صحابہ اور ازدواج مطہرات  کے متعلق دلآزار کتابیں تصنیف کیں، یا پھر ماضی میں لکھی گئی دلآزار کتابوں کے تراجم ہوئے اور اشاعت نو کی گئی۔
ان واقعات کے بعد اہل سنت کی جانب سے رد عمل آنا ناگزیر تھا۔ چناچہ  انقلاب ایران اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے قیام کے 6 سال بعد سپاہ صحابہ وجود میں آئی۔ جس نے پاکستان میں شعیوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ غالی شعیوں کے جواب میں سُنی انتہا پسند موقف کی ترجمانی کی۔ لیکن یہ دوسری انتہا پر یوں چلے گئے کہ انہوں نے "کافر کافر شعیہ کافر" کا نعرہ لگا کر تمام شعیوں کو ترازوں کے ایک ہی پلڑے میں ڈال دیا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ برصغیر میں پائے جانے والے شعیوں میں غالی شعیہ بہت کم تھے۔ یہاں ہمیشہ سے زیادہ تعداد تفصیلی شعیوں کی رہی ہے۔ جبکہ زیدی شعیہ بھی خاصی تعداد میں موجود رہے ہیں۔ 
سپاہ صحابہ اور غالی شعیوں کی زبانی وتحریری تکرار جلد ہی مسلح تصادم میں بدل گئی۔ پھر اس میں ایرانی اور سعودی پراکسی وار بھی شامل ہوگئی۔ ایک دوسرے پر حملے، مساجد ، امام باڑوں میں بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ معمول بن چکی ہے۔
اس سے فائدہ جہاریت پسند غالی شعیہ طاقتوں نے اٹھایا، جنہوں نے خوف اور مظلومیت کا ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے کہ کسی شعیہ کے لیے معتدل موقف پر برقرار رہنا ناممکن بنا دیا گیا۔ اس لیے آج پاکستان میں اہل تشیع مذہب کے تمام انڈے غالی شعیوں کی ٹوکری میں ہیں۔
اس سے ملتی جلتی صورتحال نسبتا کم شدت سے سُنیوں کو بھی درپیش ہے، یہاں بھی کسی شعیہ کے حق میں بات کرنا یا شعیوں کے کسی جزوی موقف کو تاریخ طور پر درست قرار دینا، رافضیت کا الزام خود پر لینے کے مترادف بنا دیا گیا ہے۔ 
اس ساری صورتحال میں بدترین کردار ہماری اسٹیبلشمنٹ کا رہا ہے، جسں نے ایرانی انقلاب کی پاکستان میں درامد اور فروغ کو روکنے کے لیے جذباتی سُنیوں کو استعمال کیا۔ اور پھر انتہا پسند سُنیوں کی گوشمالی کے لیے شعیوں کو استعمال کرتی رہی ہے۔ نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک جانب واضع جھکاو کی پالیسی کو ترک کر کے ریاست دونوں طرف کے انتہا پسندوں کے خلاف برابری کی سطح پر غیر جانبدارآپریشن کرے۔ تاکہ ہمارا معاشرہ دونوں جانب کے مٹھی بھر انتہا پسندوں کے نرغے سے آزاد ہو سکے۔

Wednesday, September 6, 2017

کیا 6 ستمبر 1965 کو لاہور پر ہونے والا حملہ اچانک اور غیر متوقع تھا؟؟


بی بی سی کے معروف صحافی آصف جیلانی 1965 میں دلی میں روزنامہ جنگ کے نامہ نگار تھے۔ آصف جیلانی نے بی بی سی اردو پر تحریر کی گئیں 1965 کی جنگ سے متعلق یاداشتوں میں بتایا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑی جنگ کے بادل اگست 1965 کے پہلے ہفتہ سے ہی چھانے شروع ہو گئے تھے۔ یہ وہ موقع تھا جب مقبوضہ کشمیر میں آپریشن جبرالٹر کے نام سے چھاپہ مار کارروائی اپنے عروج پر تھی۔ حکومت پاکستان کا سرکاری بیان تھا کہ یہ کشمیری ’حریت پسندوں‘ کی کارروائی ہے۔ لیکن ہندوستان کی حکومت کا واضع اصرار تھا کے یہ چھاپہ مار پاکستان کے فوجی ہیں جو جنگ بندی لائین پار کر کے ہندوستان
کی حدود میں عسکری کاروائیاں کر رہے ہیں۔
16 اگست 1965 کو ہندو قوم پرست جماعت جن سنگھ نے کی کال پر دلی میں عام ہڑتال ہوئی اور اسی روز ایک لاکھ سے زیادہ مظاہرین نے پارلیمنٹ کے سامنے تک جلوس نکالا۔ ان مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ کشمیر میں مبینہ دراندازوں کے
حملے روکنے کے لیے پاکستان پر حملہ کیا جائے۔
آصف جیلانی بتاتے ہیں 20 اگست 1965 کو بھارتی جریدے ’تھاٹ‘ کے نایب مدیر این مکرجی نے مجھے بتایا کہ انہیں بے حد باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ صبح کابینہ کے اجلاس میں ہندوستا ن کی بری فوج کے سربراہ جنرل جے این چودھری نے شرکت کی تھی اور خبر دار کیا تھا کہ رن آف کچھ کے معرکہ میں شکست کے بعد ہندوستانی فوج کے حوصلے بہت پست ہیں اور فوج کے حوصلے بڑھانے کے لیے پاکستان کے خلاف بھر پور فوجی کارروائی لازمی ہے۔ مکر جی صاحب کا کہنا تھا کہ جنرل چودھری نے صاف صاف الٹی میٹم دیا ہے کہ اگر پاکستان کے خلاف فوری کارروائی نہ کی گئی تو ملک کی سیاسی قیادت کے لیے
اس کے نتایج خطرناک ہوں گے جس کے وہ ذمہ دار نہیں ہوں گے۔
24 اگست 1965 کو اُس وقت کے بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے لوک سبھا میں اعلان کیا کہ (مقبوضہ) کشمیر میں پاکستان کے در اندازوں کو روکنے کے لیے ہندوستانی فوج جنگ بندی لائین کے پار کارروائی سے دریغ نہیں کرے
گی۔
دلی میں جنگ کے کے بادل اتنے واضع تھے کہ 17 اگست کو پاکستان کی سرکاری نیوز ایجنسی کے نامہ نگار خلیل بٹالوی جو دلی کے پٹودی ہاوس میں اپنی فیملی کے ہمرا رہائس پذیر تھے۔ جنگی حالات کے پیش نظر پٹودی ہاوس چھوڑ کر چانکیہ پوری میں پاکستان کے ہائی کمیشن کی عمارت میں پناہ لے لی تھی۔
یکم ستمبر 1965 کو ریڈیو پاکستان لاہور پر اعلان ہوا کہ ’آزاد کشمیر‘ کی فوجوں
نے پاکستانی فوج کی مدد سے چھمب پر قبضہ کر لیا ہے۔
تین ستمبر 1965 کو جب لال بہادر شاستری نے اپنی نشری تقریر میں دلی اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں بلیک آوٹ کا اعلان کیا تو کسی کو شبہ نہیں رہا تھا
کہ دونوں ملکوں میں جنگ کا بگل بج گیا ہے۔
پانچ ستمبر کو یہ خبر آئی کہ پاکستانی فوج نے جوڑیاں پر قبضہ کر لیا ہے۔ اور وہ
اکھنور سے صرف چھ میل دور رہ گئی ہے۔
آصف جیلانی مزید یہ بھی بتاتے ہیں کہ 1965 ستمبر کی جنگ کے بعد بھارت میں پاکستان کے سفیر میاں ارشد حسین نے مجھے بتایا تھا کہ ہمیں اطلاع ملی تھی ٰٓکہ لال بہادر شاستری نے 3 جولائی کو انتقامی حملہ کا فیصلہ کیا تھا لیکن بعض وجوہ کی بناء پر ملتوی کر دیا تھا۔ 6 سمتبر کو لاہور پر حملے کی باوثوق ذرائع سے اطلاع ہمیں تاخیر سے ملی تھی، اس کے باوجود 4 ستمبر کو دلی میں ترکی کے سفارت خانہ کے توسط سے پاکستان کے دفتر خارجہ کو خبردار کردیا تھا کہ ہندوستان 6 ستمبر کو بین الاقوامی سرحد پار کر کے پاکستان پر حملہ کرنے والا
ہے۔
اس سب کے باوجود لاہور پر بھارتی فوج کے حملے کو ہم سرکاری طور پر بزدل دشمن کی چوری چھپے کاروائی قرار دیتے ہیں۔

جمال خاشقجی کا قتل، سعودی شقاوت اور آزدی اظہار رائے

سعودیہ کا ایک اور جھوٹ بے نقاب ہوا’ مقتول سعودی صحافی جمال خاشقجی کے جسم کے اعضاء سعودی قونصلر جنرل محمد العتیبی کے استنبول میں واقع ...