Thursday, August 17, 2017

پاکستان کی تاریخ کے ایک منفرد کردار جنرل حمید گُل

حمید گُل صاحب جنرل ضیاٗ الحق کے باعتماد اور قریبی ساتھی اور اُن کی سوچ کے آخری نمایاں فوجی آفیسر تھے۔ انہوں نے 1956 میں فوج میں شمولیت اختیار اور 1992 میں سبکدوش ہوئے۔ اس طویل فوجی سروس میں وہ 1987 سے 1989 کے دوران 2 سال کیلئے آئی ایس آئی کے سربراہ رہے۔ لیکن وہ ہمیشہ خود کو سابق سربراہ آئی ایس آئی کہلانا پسند کرتے تھے۔ حمید گل صاحب مارچ 1987 جنرل اختر عبد الرحمان کی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے عہدے پر ترقی کے بعد آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے تھے۔ یہ عین وہی وقت تھا جب سوویت یونین نے افغانستان سے انخلا کا فیصلہ کر لیا تھا۔ جنرل صاحب کے ڈی جی آئی ایس آئی بننے کے چند دن بعد ہی افغان مجاہدین کو اسلحہ فراہم کرنے والا اوجھڑی کیمپ پراسرار طور پر تباہ ہو گیا تھا۔ جس کے نتیجے میں غیر سرکاری اندازے کے مطابق راولپنڈی اسلام آباد کے 5 ہزار معصوم لوگ لقمہ اجل بنے تھے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ ان لوگوں کی قربانی 248 سٹنگر میزائلوں کو ملک کے بہترین مفاد میں محفوظ کرنے کے لئے پیش کی گئی تھی۔ سویت یونین کے افغانستان سے انخلا کے فوری بعد امریکہ اور اس کے زیر اثر مغربی و عرب حکومتوں کی توجہ سویت یونین کی شکست سے مسقبل میں جہادیوں کی طرف سے ممکنا خطرات کی طرف منتقل ہوئی۔ جرنل حمید گل صاحب نے تجربہ کار جہادیوں کو ’’ تلف‘‘ کرنے کی بہترین حکمت عملی تیار کی۔ پہلے مرحلے پر اپنی تمام تر عسکری مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے آپریشن جلال آباد کی منصوبہ بندی کی۔ جس کے دوران 4 ہزار تجربہ کار مجاہدین شہید ہوئے لیکن جلال آباد فتح نہ ہو سکا۔ پھر ایک ایسی حکمت عملی ترتیب دی کہ چند ماہ میں ختم ہوتی نظر آنے والی کابل انتظامیہ کئی سال تک چلتی رہی۔ پھر جب کابل انتظامیہ ختم ہوئی تو بھی اقتدار جہادیوں کے ہاتھ نہیں آسکا۔ انہیں جنرل صاحب کے دور میں عرب مجاہدین کے قائد عبد اللہ عزام کو پشاور شہر میں ایک بم حملے میں شہید کر دیا گیا۔ افغان مہاجرین کے شمشتو اور جلوزئی کیمپوں پر عسکری کاروائیاں کر کے غیر افغان خصوصا عرب مجاہدین کو گرفتار کر کے عرب حکومتوں کے حوالے کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ پاکستانی مجاہدین کو "تلف" کرنے کے لئے مقبوضہ کشمیر میں جہاد شروع کرنے کی منصوبہ بندی کا سہرا بھی جرنل صاحب کے سر سجتا ہے۔ حمید گل صاحب کو جب 1989 میں ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے ہٹا کر کور کمانڈر ملتان بنایا گیا تو وہ خاصے ناراض ہوئے۔ پھر جب 1991 میں انہیں ڈائریکٹر جنرل ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا نامزد کیا گیا تو انہوں نے اسے اپنی توہین قرار دے کر ریٹائر منٹ اختیار کر لی۔ جرنل صاحب کا خیال تھا کہ ان کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کی وجہ امریکہ کا دباؤ ہے۔ شاید اسی لئے وہ اس کے بعد امریکہ کو دنیا بھر کے مسائل کا ذمہ دار قرار دیتے رہے ہیں۔ 
جہادیوں کو "تلف" کرنے کے علاوہ انکا دوسرا کارنامہ "پولٹیکل انجینیئرنگ" ہے۔ انہوں نے پاکستان کی پرائم انٹیلیجنسی کے ذریعے سیاسی اکھاڑ پچھاڑ، حکومت کی برطرفی و تشکیل اور سیاستدانوں کو اوپر اٹھانے اور گرانے کا ایسا کامیاب نظام وضع کیا، جو آج تک پوری کامیابی کے ساتھ رواں دواں ہے۔ جرنل ریٹائر حمید گل صاحب اپنی بات پورے اعتماد سے کیا کرتے تھے، لیکن 2001 کے بعد میں نے کئی بار اُن سے پرائیوٹ جہاد کے بارے میں سوال کیا تو وہ جواب دیتے ہوئے خاصے کنفیوژ دیکھائی دیے۔ اُن کی رائے کا لُب لُباب یہ تھا کہ پرائیوٹ جہاد میں کوئی ہرج نہیں اگر وہ مکمل طور پر سرکاری کنٹرول میں رہے تو۔ 
جرنل صاحب اُس خاص زہنیت کا ایک شہکار تھے جس کے خیال میں اسلام کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے، البتہ اگر کہیں اسلام اور ملکی مفاد میں ٹکراو پیدا ہو جائے تو پھر ترجیع ملکی مفاد کو دی جانی ضروری ہے۔ 
اللہ اُن کی خطاوں سے درگزر اور اُن کی مغفرت فرمائے۔ آمین

No comments:

Post a Comment

جمال خاشقجی کا قتل، سعودی شقاوت اور آزدی اظہار رائے

سعودیہ کا ایک اور جھوٹ بے نقاب ہوا’ مقتول سعودی صحافی جمال خاشقجی کے جسم کے اعضاء سعودی قونصلر جنرل محمد العتیبی کے استنبول میں واقع ...